کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 262
تاکہ وہ آپ کے لئے ایک بکری خریدلائے اس نے منڈی سے ایک دینار کی دوبکریاں خریدیں، پھران میں سے ایک کوایک دینار کے عوض فروخت کردیا۔ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نفع کاایک دینار اور خرید کردہ بکری پیش کردی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے خیرو برکت کی دعافرمائی ۔اس دعاکایہ اثر تھا کہ اگر وہ مٹی بھی خرید لیتے تواس سے بھی نفع کماتے۔ [صحیح بخاری، المناقب: ۳۶۴۲] اسی طرح حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینار دیاتاکہ وہ اس سے قربانی کاجانورخریدلائے۔ انہوں نے ایک بکری ایک دینار کے عوض خریدی ،راستہ میں اسے گاہک ملا،اسے دودینار کے عوض فروخت کردیا ،پھر دوبارہ منڈی گئے وہاں سے ایک دینار کے عوض ایک اوربکری خریدی ،حاصل کردہ نفع اورخرید کردہ بکری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش فرمائی توآپ نے حاصل کردہ نفع، یعنی ایک دینار بھی صدقہ کردینے کاحکم دیا۔ [ابوداؤد، البیوع: ۳۳۸۶] ان روایات سے معلوم ہوا کہ شرح منافع کاشریعت نے کوئی تعیّن نہیں کیاہے۔ فریقین باہمی رضامندی سے خرید وفروخت کرنے میں آزاد ہیں۔ بس ایسے امور سے اجتناب کیاجائے جن سے شریعت نے منع کیا ہے، نیز دوسرے شخص کی مجبوری سے بھی ناجائز فائدہ نہ اٹھایئے ،ان شرائط کوپورا کرتے ہوئے قیمت خریدپرحسب منشا نفع لینے پرکوئی قدغن نہیں ہے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: دوبھائیوں کامشترکہ کاروبار ہے۔ ایک بھائی فیکٹری میں تیارہونے والے مال کوفروخت کرتا ہے اوررقم وغیرہ بھی اس کے پاس ہوتی ہے وہ مشترکہ رقم سے اپنے ذاتی اخراجات بلاحساب پورے کرتا ہے، جبکہ دوسرابھائی فیکٹری کوسنبھالے ہوئے ہے اس کے پاس رقم نہیں ہوتی ،اپنے اخرجات اپنی جیب سے پورے کرتا ہے پھراخراجات کے بل پیش کرکے بھائی سے رقم وصول کرتا ہے اس بنا پر دوسرابھائی سخت ذہنی اذیت میں مبتلارہتا ہے اوروہ کہتا ہے کہ شرعی طورپر میں اپنے بھائی کے اس فعل کو معاف نہیں کروں گا۔ کیا پہلا بھائی شرعی طورپر حساب دینے کاپابند نہیں ہے؟ جواب: مشترکہ کاروبار سے مشترکہ طورپر بلاحدوحساب ذاتی اخراجات پورے کرنا ایسی صورت میں سود مندہوتا ہے، جبکہ فریقین ایثار و محبت اوررواداری اورہمدردی کو عمل میں لائیں اگراس کے برعکس کسی کے دل میں گھٹن اورتنگی ہے جس کی وجہ سے وہ ذہنی پریشانی میں مبتلارہتا ہے تواس صورت میں ذاتی اخراجات کی حدبندی ہونی چاہیے۔ بصورت دیگر کاروبارکے ٹھپ ہوجانے کااندیشہ ہے، اس لئے ہمارامشورہ ہے کہ آمدن اوراخراجات کاباقاعدہ حساب ہواورذاتی اخراجات کی بھی حدبندی ہونی چاہیے تاکہ کسی قسم کاالجھاؤ پیدا نہ ہو چونکہ یہ مسئلہ حقو ق العباد سے تعلق رکھتا ہے اس بنا پر ہم یہ وضاحت کردینا ضروری خیال کرتے ہیں کہ حدیث کے مطابق اگرکسی نے دوسرے پرظلم وزیادتی کی ہوگی وہ قیامت کے دن کئی قسم کے اندھیروں کاپیش خیمہ ہو گی، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ ’’اگرکسی نے زیادتی کاارتکاب کیا تواسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضورپیش ہونے سے پہلے پہلے معافی یا تلافی کے ذریعے اس سے نجات حاصل کرے ۔بصورت دیگرقیامت کے دن زیادتی کاحساب چکانے کے لئے درہم و دینار نہیں ہوں گے صرف نیکیاں اوربرائیاں ہی زرمبادلہ کے طورپر وہاں کام آئیں گی ۔‘‘یعنی حق دار کو اپنی نیکیاں دے کر اپنی خلاصی کراناہوگی اگر نیکیاں نہ ہوئیں توبرائیاں حق دبانے والے کے نامہ اعمال میں رکھ دی جائیں گی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے انسان کومفلس قراردیا ہے جس کی نیکیاں قیامت کے دن دوسروں کے کام آئیں اوران کی برائیاں اس کے کھاتے میں ڈال دی جائیں