کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 257
(۳) مقررہ اقساط والابیمہ :بیمہ کی یہی صورت تھی جسے سابقہ سطور میں زیر بحث لایاگیا ہے ۔ہمارے نزدیک بیمہ کی یہ صورت حرام اور ناجائز ہے کیونکہ اس میں دھوکہ جوا،سود جیسے عناصر شامل ہیں۔ بعض لوگ اس سلسلہ میں شیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ء ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے ایک فتویٰ کاحوالہ بھی دیتے ہیں کہ انہوں نے اسے جائز لکھا ہے۔ حالانکہ ان کے فتویٰ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے موجودہ بیمہ کاری کاجوازکشید کیاجائے ۔تفصیل کے لئے فتاوٰی ثنائیہ، ص: ۳۷۱،ج ۱کامطالعہ مفید رہے گا ۔اس پرمولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ اورمولاناشرف الدین محدث دہلوی کے توضیحی اشارات بھی ہیں ۔[واللّٰہ اعلم بالصواب] سوال: ہمارے پڑوس میں ایک مدرسہ ہے۔ وہاں بکثرت گوشت آتا ہے۔اہل مدرسہ ضرورت سے زائد گوشت کوبازار سے کم قیمت پرفروخت کردیتے ہیں، جبکہ وہ گوشت صدقہ وخیرات کے طورپر مدرسہ میں لایاجاتا ہے، کیا اس طرح ضرورت سے فاضل گوشت کی خریدوفروخت جائز ہے؟ جواب: مخیرحضرات جومدرسہ کے لئے اشیائے خوردنی دیتے ہیں ان کامقصد یہ ہوتا ہے کہ علم دین حاصل کرنے والے طلباء اسے استعمال کریں اورخودکھائیں ،ان کی نیت اورنیک مقصد کے پیش نظر فاضل گوشت کی خرید وفروخت سے پرہیز کرناچاہیے ،اگر گوشت وغیر ہ کسی مدرسہ کی ضرورت سے زائد ہے تواہل مدرسہ کوفراخ دلی کامظاہر ہ کرتے ہوئے کسی دوسرے مدرسہ کودے دینا چاہیے یااہل مدرسہ گوشت دینے والے کوکہہ دیں کہ ہمیں اب اس کی ضرورت نہیں ،آپ اس کے متبادل اورچیز دے دیں یاآپ کسی اور مدرسہ کودے دیں ۔گوشت کوفروخت کرنے سے عامۃ الناس میں علما کے متعلق یہ بدگمانی بھی پیداہوسکتی ہے کہ یہ لوگ حقداروں کو کھلانے کے بجائے اشیائے خوردنی آگے بیچ دیتے ہیں، پھرایسی باتوں کو بنیاد بناکر ان کے خلاف نفرت وحقارت کے جذبات کو ابھارا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ ضرورت سے زائد گوشت فروخت کرنے سے دینے والے کی نیت پوری نہیں ہوتی ،ان اسباب کے پیش نظر اس کی خریدوفروخت سے اجتناب کرنابہتر ہے بلکہ کسی دوسرے مدرسہ کو دے دینا بہترہے، البتہ اس بات کی وضاحت کردیناضروری ہے کہ حقدارکے پاس پہنچ جانے کے بعد صدقہ وخیرات کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے والا صدقے کا گوشت تناول کرلیتے تھے۔ اس کے متعلق آپ فرماتے تھے کہ ’’یہ گوشت بریرہ کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔‘‘ [صحیح بخاری ،الزکوٰۃ :۱۴۹۳] اس پرامام بخاری رحمہ اللہ نے بایں الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: ’’جب صدقے کی حیثیت بدل جائے ،تووہ صدقہ نہیں رہتا۔‘‘ اس لئے عشروغیرہ کی گندم جومدرسے کی ضرورت سے زائد ہو،اسے آگے فروخت کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے کیونکہ مدرسہ میں پہنچنے کے بعد اس کی صدقہ وغیرہ کی حیثیت ختم ہوچکی ہے، تاہم گوشت اورسبزی وغیرہ کوفروخت کرنے سے پرہیز کرناچاہیے ۔ [واللہ اعلم] سوال: ایک مسلمان کودوسرے تجارت پیشہ مسلمانوں کی موجودگی میں کسی کافر کے ساتھ مل کر کاروبار کرنے کی شرعاً کس حد تک اجازت ہے۔ کیااس سلسلہ میں اسلاف کاکوئی عمل پیش کیاجاسکتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کونظرانداز کرکے کسی کافر کے ساتھ کاروبار میں شراکت کی ہو؟ جواب: کاروبار کی بنیادامانت داری ،صداقت ،نرمی،خیرخواہی اوربردباری ہے، ان صفات کے ساتھ دین اسلام کی نعمت