کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 255
ہے کہ اس کی معیادغیرمتعین ہوتی ہے۔ اسی طرح تاحیات بیمہ پالیسی میں بیمہ کمپنی ،بیمہ کی رقم طالب بیمہ کے مرنے کی صورت میں ادا کرنے کاعہد کرتی ہے، جبکہ یہ معیاد، یعنی اس کے مرنے کاوقت نامعلوم اورغیرمتعین ہے ۔ بیمہ کامعاملہ ’’جوے‘‘ پر مشتمل ہے ۔ بیمہ کا کاروبار اس لئے بھی حرام اورناجائزہے کہ اس میں جواپایا جاتا ہے جوقرآن کریم کی نظر میں ایک شیطانی عمل ہے حصول زرکی ہروہ شکل جواہے جس میں اسے حاصل کرنے کا دارومدار محض اتفاق وبخت پرہواوردوسرے یکساں حق رکھنے والوں کے مقابلہ میں ایک شخص کسی لاٹری ،قرعہ اندازی یامحض کسی اور اتفاق کے نتیجہ میں رقم کوحاصل کرلے ۔یہ تمام جوے کی اقسام ہیں جوے کی تعریف کاروبار بیمہ پراس طرح صادق آتی ہے کہ جوے میں فریقین اس بات کاعہدکرتے ہیں کہ وہ دوسرے کوایک مقرر ہ رقم کوئی حادثہ پیش آنے پرادا کرے گا ،کاروبار بیمہ میں بھی یہی ہوتا ہے کہ بعض اوقات طالب بیمہ ایک قسط ادا کرنے کے بعد مر جاتا ہے، تو اس کے نامزد کردہ وارث کو اداکردہ رقم سے کئی گنازیادہ رقم مل جاتی ہے ا س کااس طرح مرنا ہی ایک اتفاقی حادثہ ہے جو نامزدوارث کے لئے کثیر رقم ملنے کاباعث بنا ہے تھوڑی سی محنت کرکے اتفاقی طورپر بہت زیادہ رقم ہتھیالینا ’’میسر‘‘ کہلاتا ہے۔ جس سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے۔ اس طرح طالب بیمہ اگرمعینہ مدت سے پہلے اپنے عقد کوفسخ کرناچاہے اوربقیہ اقساط کی ادائیگی روک لے تواس صورت میں کمپنی جمع شدہ رقم کی مالک بن جاتی ہے۔ یہ بھی ’’قمار‘‘ کی ایک قسم ہے جس کی شرعاًاجازت نہیں ہے ۔ اس کاروبارمیں سود کی دونوں قسمیں پائی جاتی ہیں۔ طالب بیمہ جورقم اقساط کی صورت میں کمپنی کواداکرتا ہے اگرحادثہ کے وقت اس کے مساوی رقم واپس ملے توایک طرف سے نقدادائیگی اور دوسری طرف سے ادھار ہونے کی بنا پر یہ ادھار کاسود ہے جسے شریعت کی اصطلاح میں ’’رباالنسیئۃ‘‘ کہتے ہیں اور اگر وہ اداکردہ رقم سے زیادہ ہے تو یہ اضافے کاسودہے جسے ’’رباالفضل‘‘ کہاجاتا ہے کیونکہ یہ زائد رقم اس کی ادا کردہ رقم کے عوض ملتی ہے سودیہی ہوتا ہے کہ ایک آدمی کچھ رقم کسی دوسرے کو دیتا ہے، پھرایک خاص مدت کے بعد اس رقم کے عوض وصول کرتا ہے۔ جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگرتم توبہ کرلوتوصرف اپنی رقم کے حقدار ہو۔‘‘ [۲/البقرہ :۲۷۹] نیز معینہ مدت تک زندہ رہنے اورتمام اقساط ادا کرنے کی صورت میں طالب بیمہ مجموعی رقم سے زائد زربیمہ لینے کامستحق ہوتاہے یہ اضافہ کے ساتھ خطیر رقم یکمشت یابالاقساط لے سکتا ہے۔ یہ سود کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے ۔ کاروبار بیمہ ضابطہ وراثت سے متصادم ہے ۔ یہ کاروبار اس لئے بھی ناجائزہے کہ اس پرعمل کرنے سے ضابطہ وراثت مجروح ہوتا ہے کیونکہ مرنے کی صورت میں زربیمہ کامالک وہ نامزدشخص بن جاتا ہے جوطالب بیمہ نے اپنی زندگی میں مقرر کیاہوتا ہے۔ باقی ورثاء اس سے محروم ہوتے ہیں، حالانکہ اس کے ترکہ میں تمام شرعی ورثاء شریک ہوتے ہیں ۔دورجدید میں فلمی اداکارہ کے حسن وجمال اورایک مغنیہ اورگلوکارہ کی آواز کا بیمہ بھی ہوتاہے، اس بیمہ نے ایسے نام نہاد مفادات کوجنم دیا ہے جنہیں شریعت سرے سے کوئی مفاد ہی تسلیم نہیں کرتی ،اس طرح اس کاروبار میں ’’التَّعَاوُنُ عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ‘‘ بھی پایا جاتا ہے، لہٰذاس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ سوال میں اس پہلو