کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 254
حادثہ پیش آئے گا یانہیں، اگرآئے گا توکب آئے گا ؟بعض اوقات طالب بیمہ ایک ہی قسط ادا کرنے کے بعد حادثے سے دو چار ہوجاتا ہے اوررقم بیمہ کاحقدار بن جاتا ہے جبکہ بعض اوقات پوری اقساط اداکرنے کے باوجود حادثہ پیش نہیں آتا ،اس طرح تحفظ فراہم کرنے والی بیمہ کمپنی کومعاہدہ کے وقت علم نہیں ہوتا کہ وہ کیاوصول کرے گی اورکیاادا کرے گی کیونکہ بعض اوقات ایک ہی قسط وصول کرنے کے بعد حادثہ پیش آجاتا ہے اوراسے بیمہ کی رقم طالب بیمہ کواداکرناپڑتی ہے اوربعض اوقات پوری اقساط وصول کرلیتی ہے، لیکن حادثہ پیش ہی نہیں آتا ،اس طرح یہ معاملہ سراسرایک ’’اندھا سودا‘‘ ہے۔ جس میں دھوکے کاپہلو نمایاں طورپر موجود ہے جس کی مزید وضاحت حسب ذیل ہے: مالی معاملات میں دھوکہ چارطرح سے ہوسکتا ہے۔ 1۔ خودکسی چیز کے وجود میں دھوکہ ہو،جیساکہ گم شدہ اونٹ کی خریدوفروخت ۔ 2۔ کسی چیز کے حصول میں دھوکہ ہو،جیسے اڑتے ہوئے پرندوں کی خریدوفروخت ۔ 3۔ کسی چیز کی مقدار میں دھوکہ ہو،جیسا کہ پتھر پھینکنے کی جگہ تک زمین کی خریدوفروخت ۔ 4۔ مدت حصول میں دھوکہ، جیسا کہ حمل کے جنم تک قیمت ادا کرنا وغیرہ کاروبار بیمہ میں دھوکہ کی یہ چاروں اقسام پائی جاتی ہیں ۔ ٭ کسی چیز کے وجود میں دھوکے کاپایا جانا ،یہ دھوکہ کی شدیدترین قسم ہے یہی وجہ ہے کہ فقہا نے صرف معدوم چیز کے معاوضہ پرہی بطلان کاحکم نہیں لگایا بلکہ وہ اس کے حکم کے تحت ہراس چیز کوشامل کرتے ہیں جس کے وجود اورعدم دونوں کااحتمال ہو،دھوکہ کی یہ قسم کاروبار بیمہ میں پوری طرح دیکھی جاسکتی ہے کیونکہ بیمہ کی جورقم کمپنی کے ذمے ہوتی ہے اس کاوجود غیر یقینی ہے کیونکہ اس کاوجودحادثہ پرموقوف ہوتا ہے اوروہ خودغیریقینی ہے ۔ ٭ کسی چیز کے حصول میں دھوکہ پایا جانا اس کے معاوضہ کوباطل کردیناہے، جیسا کہ دریامیں تیرتی ہوئی مچھلیوں کی قیمت ادا کرنا کیونکہ جوشخص ان کی قیمت اداکرتا ہے وہ گویا ان کے حصول کوداؤ پر لگارہاہے وہ معاملہ کرتے وقت یہ نہیں جانتا کہ اس نے جس چیز کی قیمت ادا کی ہے وہ اسے حاصل بھی کرسکے گا یانہیں، جبکہ اس نے معاوضہ صرف اس چیز کوحاصل کرنے کے لئے اد اکیا ہے بیمہ کے کاروبار میں بھی یہ دھوکہ پایا جاتا ہے کیونکہ طالب بیمہ معاہدہ کرتے وقت یہ نہیں جانتا کہ آیا بیمہ کی جس رقم کے بدلے اس نے اقساط اداکی ہیں وہ اسے حاصل کرسکے گا یا نہیں، کیونکہ اس کاحصول تواس حادثہ پرموقوف ہے جس کاواقع ہونا یقینی نہیں ہے ۔ ٭ معاوضہ کی مقدار کادھوکہ بھی وجود اورحصول کی طرح معاوضہ کوباطل کر دیتاہے، جیسا کہ مٹھی بندروپوں کے عوض کوئی چیز خریدنا شرعاًباطل ہے اس طرح نقصانات کے بیمہ میں طالب بیمہ کومعاہدہ کرتے وقت اس معاوضہ کی مقدار کاعلم نہیں ہوتا جو بیمہ کمپنی حادثہ پیش آنے کی صورت میں اداکرے گی اوراس طرح بیمہ کمپنی بھی معاہدہ طے ہوتے وقت اس بات سے بے خبرہوتی ہے کہ وہ طالب بیمہ سے جوکچھ حاصل کرے گی اس کی مقدار کیاہوگی، کیونکہ بعض اوقات ایک ہی قسط وصول کرنے کے بعد حادثہ پیش آجاتا ہے جبکہ بعض اوقات تمام اقساط وصول کرنے کے باوجود حادثہ پیش نہیں آتا ۔ ٭ معاوضے والے معاملات میں اگر مدت معلوم نہ ہوتو بھی معاملہ باطل ہوجاتا ہے، جیسا کہ حمل کی خریدوفروخت، اس لئے منع