کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 253
جائز وناجائز کاموں پرصرف کی جاتی ہے جیسے عمارات کی تعمیر اوربھاری شرح سود پرآگے بڑی کمپنیوں کوقرض دینا وغیرہ ۔ 3۔ طالب بیمہ اگرمعینہ مدت تک زندہ رہے اورپوری رقم بالاقساط ادا کردے تووہ کمپنی سے ادا کردہ رقم سے زائد وصول کرنے کاحقدار ہوجاتا ہے۔ اگراس مدت سے پہلے مرجائے تواس کی طرف سے نامزدشخص زربیمہ کامستحق ہوتا ہے۔ 4۔ اگرطالب بیمہ معینہ مدت سے پہلے اپنی اقساط بند کرکے معاہدہ بیمہ کوختم کرناچاہے توجمع شدہ رقم کمپنی ضبط کرلیتی ہے ۔ بیمہ کی تعریف مختصرطورپر یوں کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس کی رو سے تحفظ دھندہ، یعنی بیمہ کمپنی پریہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس شخص کوجس نے بیمہ پالیسی خریدی ہے حادثہ یا نقصان پہنچنے کی صورت میں ایک مخصوص رقم ادا کرے۔ اس تعریف سے بیمہ کے تین عناصر کاپتہ چلتا ہے وہ یہ ہیں : 1۔ بیمہ کی قسط 2۔ خطرہ 3۔ بیمہ کی رقم خطرہ سے مراد امکانی حادثہ ہے جومستقبل میں کسی وقت بھی پیش آسکتا ہے یہ خطرہ اورحادثہ ہی اس کاروباربیمہ میں بنیادی حیثیت کاحامل ہے اورباقی دوسرے عناصر کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس کاروبار کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ معاہدہ کی روسے فریقین ذمہ داربن جاتے ہیں اس میں ایک فریق خطرات سے تحفظ فراہم کرنے والا ہے اوردوسراوہ جسے تحفظ فراہم کیاجاتا ہے ۔ جسے طالب بیمہ کہتے ہیں اس کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اقساط بیمہ کی ادائیگی کابروقت بندوبست کرے،یہ ذمہ داری معاہدہ کی تکمیل کے وقت ہی شروع ہوجاتی ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں بیمہ کمپنی کی ذمہ داری غیریقینی اوراحتمالی ہوتی ہے کیونکہ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حادثہ پیش آنے کی صورت میں بیمہ کی رقم اداکرے، اس ذمہ داری کے وجود کاتصور اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ کوئی حادثہ پیش آئے ،اس وجہ سے دھوکہ اوراحتمال اس کاروبار کابنیادی رکن اورلازمی عنصر ہے کیونکہ بیمہ کاکاروبار اس کے بغیر ناممکن ہے اوریہ دھوکہ اپنی نوعیت اورقسم کے لحاظ سے انتہائی سنگین ہے ۔کیونکہ حصول معاوضہ کے سلسلہ میں اس کی مقدار اوراس کی مدت کے بارے میں پایا جاتا ہے جبکہ شریعت نے کاروباری معاملات میں دھوکہ کی معمولی قسم کوبھی حرام ٹھہرایا ہے۔ دھوکے کوعربی زبان میں ’’غرر‘‘کہتے ہیں جس کی تعریف یہ ہے کہ ’’وہ غیر طبعی ،غیر معمولی اورغیریقینی صورت حال جس کے پیش نظر کسی معاملہ یالین دین کے ضروری پہلو متعین نہ کئے جاسکیں اورفریقین آخروقت تک اس معاملہ میں غیر یقینی کاشکاررہیں کہ ان کے معاملہ کی اصل صورت بالآخرکیاہوگی ۔‘‘ غررکی متعدد تعریفات سے اس کے جواہم عناصر سامنے آئے ہیں، وہ شک وشبہ ،غیر یقینی کیفیت اورمعاملہ کے بنیادی اجزاء کاغیر معلوم اور غیرمعین ہونا ہے۔ جس معاملہ میں یہ عناصر پائے جائیں وہ معاملہ مبنی بردھوکہ سمجھاجائے گا اورشریعت میں ایسا معاملہ ناجائز اورحرام ہے۔ ہم اس مقام پریہ وضاحت کردیناضروری خیال کرتے ہیں کہ بیمہ کے متعلق محل اختلاف اس کا نظریہ اورنظام ہرگز نہیں ہے بلکہ محل اختلاف وہ طریق کاراورذریعہ ہے جواس کے نظریہ کوعملی جامہ پہنانے کے لئے اختیار کیاگیا ہے۔ اس کے طریق کار کے پیش نظر کاروبارغیریقینی اورسنگین دھوکے والا معاملہ ہے۔ اس کے غیریقینی ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس میں فریقین میں سے ہرایک کومعاہدہ کی تکمیل کے وقت معاوضہ کی اس مقدار کاعلم نہیں ہوتا جووہ ادا کرے گا یاوصول کرے گا۔ اس لئے کہ وہ تواس خطرہ کے وقوع یاعدم وقوع پرموقوف ہوتا ہے جس سے تحفظ دیا گیا ہے اوریہ بات اللہ کے علاوہ اورکوئی نہیں جانتا کہ