کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 252
بڑھالے اتنانفع فروخت کار بڑھالیتا ہے ۔اس کے متعلق شرعاً کیا حکم ہے؟ جواب: اگرمجلس عقد میں پہلے سے بھاؤ اورادا قیمت کی معیاد طے کرلی گئی تھی توپھر اگرخریدار بروقت رقم مہیا نہ کر سکے تو ازسرنو اضافہ کے ساتھ قیمت کاتعین کرناجائز نہیں ۔جیسا کہ صورت مسئولہ میں وضاحت کی گئی ہے اگرایسا کیاگیا تو واضح طورپرسود ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے ۔فروخت کار کوایسے موقع پر رواداری سے کام لیناچاہیے کہ ادائیگی کی مدت قیمت میں اضافہ کے بغیر بڑھادی جائے ۔حدیث میں اس طرح کے تنگ دست کے ساتھ نرمی اورمزید مہلت دینے پربہت فضیلت آئی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کوصرف اس لئے معاف کردیاتھا کہ وہ مفلوک الحال اورتنگ لوگوں کومزید مہلت دیا کرتا تھا اگر خریدار رقم دیر سے ادا کرنے کاعادی مجرم ہے تواس کے سدباب کے لئے جرمانہ وغیرہ کیاجاسکتا ہے، لیکن ازسرنوسابقہ رقم بڑھاکر نیابل بنانا شرعاً حرام ہے۔ ایسا کرنااللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے مترادف ہے ۔ [واللہ اعلم بالصواب] سوال: ایک انشورنس کمپنی E.F.Uکا دعویٰ ہے کہ ہم رقم کوبزنس میں لگاتے ہیں اورمنافع یانقصان سرمایہ لگانے والوں میں تقسیم کردیتے ہیں ہم بنک یادوسری سیونگ سکیموں کی طرح منافع کی شرح فکس نہیں کرتے ،اس کے متعلق واضح کریں کہ ایسی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا شرعاًدرست ہے ؟ جواب: انشورنس جسے بیمہ کہاجاتا ہے ایک جدید کاروبار ی معاملہ ہے جس کااسلامی فقہ کے ابتدائی دور میں کوئی وجود نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ دورحاضر کے جن ماہر ین علم نے اس پربحث کی ہے ان کی آراء مختلف ہیں۔ بعض اس کے جائز ہونے کی طرف رجحان رکھتے ہیں جبکہ بعض دوررس اورباریک بین حضرات نے اس کے برعکس اس کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے، لہٰذا اس کے متعلق شرعی حکم معلوم کرنے سے پہلے اس معاملہ کی اصل حقیقت جاننا انتہائی ضروری ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بیمہ نظریہ کے اعتبار سے باہمی تعاون اورامداد محض پرقائم ہے ۔نظریے کی حد تک یہ ایک ایسا امر ہے جس میں شریعت نے بھی ابھاراہے۔ دین اسلام نے ہمیں باہمی تعاون ،ایک دوسرے کی مدد ،ایثار اورقربانی دینے کی ترغیب دی ہے، جس کی عملی صورت معاملات ،عطیات اورصدقات وخیرات ہیں ۔شریعت اسلامیہ نے جہاں اغراض ومقاصد بیان کئے ہیں وہاں ان ذرائع ووسائل کوبھی بیان کیا ہے جوان مقاصد کے حصول کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ بیمہ نظریہ اورنظام کے اعتبارسے تو تعاون محض پر قائم تھا لیکن عملی طورپر جوذرائع استعمال کئے گئے ہیں وہ اس نظریہ کی نفی کرتے ہیں، جیسا کہ آیندہ معلوم ہو گا دراصل امداد باہمی پرمبنی یہ نظام جب یہود یانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھا تواسے پہلے توکاروباری شکل دے دی گئی، پھرسود ،دھوکہ اورجوئے جیسے بدترین عوامل وعناصر کواس میں شامل کرکے اس پرسے تعاون محض کی چھاپ کواتاردیا گیا یہ بیمہ اشخاص اورکمپنی کے درمیان ایک خاص عقد کانام ہے جس میں افراد اور کمپنیوں کے درمیان مندرجہ ذیل امورطے پاتے ہیں 1۔ طالب بیمہ ایک معینہ مدت تک بالاقساط ادا کرتا ہے اس کے عوض بیمہ کمپنیاں اسے خطرات سے تحفظ اورگراں قدر سالانہ منافع پیش کرتی ہیں۔ 2۔ یہ کمپنیاں اپنی صوابدید کے مطابق جہاں چاہیں اس رقم کوصرف کریں۔ طالب بیمہ اس سے قطعی طورپر لاتعلق ہوتا ہے۔ یہ رقم