کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 250
جب زکوٰۃ کے اونٹ آئیں گے توایک اونٹ کے عوض دواونٹ دیے جائیں گے۔ [مستدرک حاکم ،البیوع:۲۳۴۰] لہٰذا فروخت کارکاحق ہے کہ ادھار لے جانے والے سے اگرچاہے توعام گاہک سے اپنے مال کی زیادہ قیمت وصول کرے، اس میں بظاہر شرعاًکوئی قباحت نہیں ہے۔ سوال: ایک صورت بازار میں یہ بھی رائج ہے کہ اگرنقد ادائیگی ہوگی تو ریٹ یہ ہوگا اگرادھار لوگے تواتنے دام زیادہ ہوں گے، کیانقد وادھا ر کی قیمت میں فرق کرناشرعاًجائز ہے؟ جواب: شرعی لحاظ سے نقد اورادھارکی صورت میں کسی چیز کی قیمت کوکم وبیش کرناجائز ہے بشرطیکہ مجلس عقد میں چیز کی مقدار اوراداقیمت کی معیاد مقرر کرلی جائے ،اگرچہ ادھار دینے کی صورت میں مختلف مدتوں کے مقابلہ میں مختلف قیمتیں مقرر کرلی جائیں، لیکن عاقدین کے درمیان عقد بیع کے وقت مختلف مدتوں اورقیمتوں کے درمیان کسی ایک مدت اورقیمت کاتعین ہوناضروری ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے ائمہ اربعہ ،جمہور فقہا اورمحدثین کامسلک بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ خریدوفروخت کے عمومی دلائل کے پیش نظر ادھار بیع میں نقد کی نسبت قیمت زیادہ وصول کرناجائز ہے بشرطیکہ خریدار اورفروخت کار ادھاریانقد کاقطعی فیصلہ کرکے کسی ایک قیمت پرمتفق ہوجائیں ۔ [نیل الاوطار :۵/۱۷۲] اس بنا پر اگرکہے کہ میں یہ چیز نقد اتنے میں اور ادھار اتنے میں فروخت کرتا ہوں اس کے بعد کسی ایک بھاؤ پراتفاق کئے بغیر دونوں جدا ہو جائیں توجہالت ثمن کی وجہ سے یہ بیع ناجائز ہوگی لیکن اگرعاقدین مجلس عقد میں ہی کسی ایک شق اورکسی ثمن پراتفاق کرلیں توبیع جائز ہوگی۔ چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : بعض اہل علم نے ’’بیعتین فی بیعۃ‘‘ کی تشریح بایں الفاظ کی ہے کہ فروخت کار خریدار سے کہے کہ میں یہ کپڑا تجھے نقد دس اورادھار بیس روپے میں فروخت کرتا ہوں، پھراگر ان دونوں میں سے کسی ایک پراتفاق ہونے کے بعد جدائی ہوئی تواس میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ معاملہ ایک طے ہوگیا۔ [ترمذی، البیوع: ۱۲۳۱] نقد اورادھار کی قیمت میں فرق کرنے کے متعلق ہمارا مفصل فتویٰ اہل حدیث مجریہ ۷جون ۲۰۰۲شمارہ۲ ۲میں شائع ہوچکا ہے ۔ نوٹ: ہمارے ہاں بعض علما ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافے کوناجائز کہتے ہیں ان کاکہناہے کہ قیمت میں یہ اضافہ مدت کے عوض میں ہے اورجواضافہ مدت کے عوض میں ہووہ سود ہے جسے شریعت نے حرام کیا ہے لیکن یہ اضافہ مدت کاعوض نہیں بلکہ مدت کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اس ادھار کی قیمت میں کچھ قیمت توبیع کی ہواور کچھ قیمت اس مدت کی ہو جو عاقدین نے قیمت کی ادا ئیگی کے لئے طے کی ہے بلکہ بعض مخصوص معاشرتی حالات کے پیش نظر ادھار میں جوسہولت میسرآتی ہے اس کی وجہ سے کچھ اضافہ ہوا ہے۔ آسانی کے پیش نظر یوں بھی تعبیر کیاجاسکتا ہے کہ یہاں پرقیمت میں اضافہ ادھار کی وجہ سے ہے، ادھار کے عوض میں نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے ہمارے فتویٰ کامطالعہ کیجئے جس کااوپرحوالہ دیا گیا ہے ۔ سوال: بعض اوقات ہمارے پاس بیوپاری آتے ہیں ان کے پاس مال کے نمونے ہوتے ہیں، فریقین باہمی رضامندی سے ریٹ طے کر لیتے ہیں، ہمیں علم ہوتا ہے کہ یہ سودامہنگا ہے کیونکہ ادھار لے رہے ہیں لیکن باہمی رضامندی سے یہ طے کرلیاجاتا ہے