کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 233
احادیث کے پیش نظر ہمیں چاہیے کہ جب سورج غروب ہونے کااطمینان ہوجائے توروزہ افطار کردیناچاہیے، احتیاط کے پیش نظر دیرکرناصحیح نہیں ہے۔ اسے یہودونصاریٰ کی علامت بتایاگیا ہے ۔ [واللہ اعلم بالصواب] سوال: دواکے ساتھ غرار ے کرنے سے کیا روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دارکو بوقت وضو مبالغہ کے ساتھ ناک میں پانی چڑھانے سے منع کیا ہے، حدیث میں ہے کہ ’’وضو کرتے وقت ناک میں مبالغہ کے ساتھ پانی چڑھاؤ اِلاّیہ کہ تم بحالت روزہ ہو۔‘‘ [ابو داؤد، الطہارۃ:۱۴۲] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دار کے لئے یہ پابندی، اس لئے لگائی ہے کہ مبادا پانی پیٹ میں چلاجائے اوراس کاروزہ خراب ہو جائے۔غرارے کرنے کوبھی اس پر قیاس کیاجاسکتا ہے ،لیکن اگر اس کے بغیرچارہ نہ ہو تواحتیاط کے ساتھ غرارے کیے جائیں ، تاکہ پانی حلق کے نیچے نہ اترے ،ایسا کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ،مگر یادرہے کہ انتہائی شدید ضرورت کے پیش نظر ایسا کرنا چاہیے۔ گلے میں خراش کے لئے نمک یاکوئی اورمحلول پانی میں ملاکر غرارے کرنے سے پرہیز کرناچاہیے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: ایک عورت جوحافظہ قرآن ہے وہ گھر میں عورتوں کو نماز تراویح باجماعت پڑھاتی ہے کیاعورت تراویح کی جماعت کرا سکتی ہے ؟ جواب: امت کے اکثر علمائے سلف اس بات کے قائل ہیں کہ عورت کاعورتوں کی جماعت کراناصحیح اورجائز ہے۔ اگرچہ کچھ حضرات نے اس موقف سے اختلاف کیا ہے، تاہم عورت کاجماعت کراناصحیح احادیث سے ثابت ہے۔ محدثین کرام نے اپنی کتب حدیث میں اس کے متعلق باقاعدہ عنوان بھی بیان کئے ہیں، چنانچہ ابوداؤد نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے کہ’’ عورتوں کی امامت کابیان۔‘‘ پھر اس عنوان کوثابت کرنے کے لئے شہیدہ فی سبیل اللہ حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ رضی اللہ عنہما کاواقعہ نقل کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا کہ ’’وہ اپنے اہل خانہ کی نمازباجماعت کے لئے امامت کے فرائض سرانجام دے۔‘‘ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے عورتوں کی امامت اوران کی نمازباجماعت کے اہتمام کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ [ عون المعبود :۱/۲۳۰] امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیاہے کہ ’’عورتوں کی امامت کے اثبات کا بیان۔‘‘ پھر انہوں نے صدیقہ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاواقعہ بیان کیاہے کہ انہوں نے ایک دفعہ نماز کے لئے عورتوں کے درمیان کھڑے ہوکر ان کی امامت کرائی تھی۔ [بیہقی :۳/۱۳۰] حضرت ام حسن 'کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کوعورتوں کی امامت کراتے دیکھا کہ آپ ان کے درمیان کھڑی تھیں۔ [مصنف ابن ابی شیبہ :۱/۵۳۶] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ عورت دیگر عورتوں کی جماعت کراسکتی ہے لیکن وہ آگے کھڑے ہونے کے بجائے عورتوں کے درمیان کھڑی ہو ۔ [مصنف ابن ابی شیبہ :۱/۵۳۶] تابعین میں سے حضرت حمید بن عبدالرحمن اورامام شعبی رحمہما اللہ کابھی یہی فتویٰ ہے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ حوالہ مذکورہ ]