کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 216
سوال: ایک آدمی حج کرناچاہتا ہے لیکن اس کے پاس صرف پچاس ہزار روپے تھے جوفریضہ حج کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ، چندمخیر حضرات نے زکوٰۃ سے اس کی بقیہ رقم پوری کردی ،اس شخص کی حج کے لئے درخواست منظورہوگئی لیکن وہ حج پر جانے سے پہلے فوت ہوگیا ،اب دریافت طلب امریہ ہے کہ حج کے لئے بینک میں جمع شدہ رقم کی کیاحیثیت ہوگی کیاوہ تمام رقم زکوٰۃ شمارہوگی یامرحوم کاترکہ خیال کیاجائے گا یاصرف وہی رقم زکوٰۃ شمار ہوگی جومخیر حضرات نے زکوٰۃ سے دی تھی۔قرآن و حدیث کے مطابق اس کا جواب دیں تاکہ ہماری الجھن دور ہو جائے؟ جواب: بشرط صحت سوال واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں مذکورہ آدمی کے پاس جورقم پہلے سے موجود تھی اورجومخیر حضرات نے مال زکوٰۃ سے اسے دی سب اس کی ذاتی شمار ہوگی اوراس کے فوت ہونے کے بعد اس کے ورثاء اس ترکہ کے حقدار ہیں۔ اس میں زکوٰۃ اورغیرزکوٰۃ کی تمیز نہیں ہوگی ۔کیونکہ صدقہ وخیرات جب اپنے مقام پرپہنچ جاتا ہے تو اس کے احکام بدل جاتے ہیں اورلینے والے کے لئے ذاتی ملکیت بن جاتی ہے، پھروہ اس میں جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے۔ جیساکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ گوشت لایا گیا دریافت کرنے پربتایا گیا کہ یہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہما پرصدقہ کیاگیا تھا۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا :’’یہ گوشت بریرہ کے لئے صدقہ تھا اورہمارے لئے ہدیہ ہے ۔‘‘ [صحیح بخاری ،الھبہ :۲۵۷۷] حضرت بریرہ رضی اللہ عنہما نے وہ گوشت ہدیہ کے طور پرآپ کے گھربھیجاتھا ۔اس لئے آپ نے اسے اپنے لئے ہدیہ قراردیا۔ اسی طرح ایک واقعہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بھی مروی ہے کہ آپ نے اسے قبول کرتے ہوئے فرمایاتھا یہ گوشت اپنے مقام پرپہنچ چکا ہے۔ [صحیح بخاری ،الھبہ : ۲۵۴۷۹] اس پرامام بخاری رحمہ اللہ نے یوں باب قائم کیا ہے: ’’جب صدقہ کی حیثیت تبدیل ہو جائے‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صدقہ جب فقیر کے پاس پہنچ جاتا ہے تو اس میں اس کے لئے تصرف کرناجائز ہے، یعنی اسے فروخت کرنایاکسی دوسرے کوہبہ کرناجائز ہے۔ [فتح الباری ،ص ۴۴۹،ج ۳] مذکورہ سوال کی وجہ سے جورقم مخیرحضرات نے بطورزکوٰۃ اسے دی تھی اب وہ اس کی ملکیت شمارہوگی ،اس کے مرنے کے بعد اس تمام رقم میں وراثت کاقانون جاری ہو گا۔ [واللہ اعلم ] سوال: میں آڑھت کاکاروبار کرتا ہوں اس کے ساتھ زمیندارہ بھی کررکھا ہے۔ جس رقبہ پرکاشتکاری کرتا ہوں وہ میں نے ٹھیکہ پرلیاہوا ہے کاشتکاری پرجوخرچ آتا ہے وہ رقم آڑھت کے ہی سرمایہ سے لیتا ہوں اورمیں نے اس رقم کی زکوٰۃ اد اکررکھی ہے۔ دریافت طلب امریہ ہے کہ پیداوار کاعشر ٹھیکہ کی رقم منہاکرکے اد اکرناہے یامجھے کل پیداوار سے اد اکرناہوگا، نیز جو رقم میں آڑھت کے سرمایہ سے زمیندار ہ پرخرچ کرتا ہوں اسے بطور قرض شمار کرکے خود کو مقروض قرار دے سکتا ہوں؟ جواب: ہم نے اہلحدیث مجریہ ۱۷اپریل۲۰۰۴ شمارہ نمبر ۱۴میں عشر سے متعلق ایک فتویٰ میں لکھا تھا کہ اگرزمین کو ٹھیکے پردے دیاجائے توزمیندارچونکہ زمین کامالک ہوتا ہے وہ ٹھیکے کی اس رقم کواپنی مجموعی آمدنی میں شامل کرکے زکوٰۃ ادا کرے گا بشرطیکہ وہ نصاب کوپہنچ جائے اوراس کی ضروریات سے فاضل ہو، نیز اس پرسال بھی گزرجائے ۔زمین ٹھیکے پرلینے والا کاشت کرنے میں