کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 210
مالک بھی وہی ہوتا ہے۔ وہ صاحب اختیارہونے کی حیثیت سے عشراد اکرے گا ۔ٹھیکے کی رقم اس سے منہانہیں کی جائے گی ،کاشت کار کومتعدد مالی اخراجات کی وجہ سے بیسواں حصہ دینے کی رعایت دی گئی ہے۔ اگراس رعایت کے باوجود ٹھیکہ کی رقم ،کھاد ،سپرے کے اخراجات ، کٹائی کے لئے مزدوری اورتھریشر وغیرہ کے اخراجات بھی منہاکردئیے جائیں توباقی کیابچے گا ۔جوعشر کے طورپر ادا کیاجائے گا ۔ لہٰذا ہمارارجحان یہ ہے کہ کاشتکار کسی قسم کے اخراجات منہا کئے بغیراپنی پیداوار سے بیسواں حصہ بطور عشرادا کرے گا، بشرطیکہ اس کی پیداوار پانچ وسق تک پہنچ جائے۔ اگراس سے کم ہے توعشر نہیں، ہاں اگر چاہے تو فی سبیل اللہ دینے پرکوئی پابندی نہیں ہے۔[واللّٰہ اعلم بالصواب] سوال: صدقۃ الفطر رمضان کے پہلے عشرہ میں ادا کیاجاسکتا ہے؟ احادیث اور تعامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جواب مطلوب ہے؟ جواب: صدقۃ الفطر کی فرضیت کاسبب فطر رمضان ہے۔ اس بنا پر یہ صدقہ، فطر کے ساتھ مقید ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے فطر رمضان سے پہلے نہیں ادا کرناچاہیے تاہم اس کی ادا ئیگی کے دووقت ہیں: 1۔ وقت جواز، یہ عید سے ایک یادودن پہلے ہے یعنی اسے عید سے ایک یا دو دن پہلے ادا کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ صدقہ فطر عید سے ایک یادودن پہلے سرکاری طورپرصدقہ وصول کرنے والوں کے حوالے کردیتے تھے۔ [صحیح بخاری ،الزکوٰۃ:۱۵۱۱] 2۔ وقت فضیلت :یہ عید کے دن نمازعیدسے پہلے کاوقت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جس نے صدقہ فطر نماز سے پہلے ادا کردیا تویہ صدقہ قبول ہوگا اورجس نے اسے نماز عید کے بعد اد اکیا تویہ صدقات میں سے ایک عام صدقہ ہے یعنی صدقہ فطر نہیں ہے۔‘‘ [سنن ابی داؤد، الزکوٰۃ :۱۶۰۹] اگرکوئی نمازعید کے بعد تک اسے مؤخر کرتا ہے توایسا کرناجائز نہیں ہے اس سے صدقہ فطر ادا نہیں ہوگا۔ ان تصریحات کے پیش نظر ہمارارجحان یہ ہے کہ صدقہ فطر رمضان کے پہلے عشرہ میں ادا کرناصحیح نہیں ہے ۔اہل علم کے ہاں راجح قول یہی ہے کہ صدقہ فطر کواس قدر قبل ازوقت ادا کرنا درست نہیں ہے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: میں کویت میں مقیم ہوں جبکہ میرے اہل خانہ پاکستان میں ہیں۔ کیا وہ میری طرف سے صدقہ فطر ادا کرسکتے ہیں اگر ادا کرسکتے ہیں تو کس حساب سے دیں گے؟ جواب: صدقہ فطر کے دو مقاصد ہیں: ایک تو روزوں کی تطہیر کا باعث ہے او ر دوسرا مساکین کی غذائی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ پہلے سبب کی وجہ سے صدقہ فطر روزے دار کے بدن کے تابع ہے یعنی جہاں وہ رہتا ہے وہ خود اپنی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے۔ ہمارے نزدیک قیمت کی بجائے جنس سے اس کی ادائیگی ہونی چاہیے، کیونکہ محدثین کرام کا یہی موقف ہے۔ اگر اس نے قیمت ادا کرنی ہے تو ظاہر ہے جس ملک میں وہ رہائش پذیر ہے اسی ملک کی کرنسی کے مطابق وہ اس کی ادائیگی کرنے کا پابند ہے۔ البتہ یہ جائز ہے کہ اس کی طرف سے پاکستان میں رہنے والے اہل خانہ صدقہ فطر ادا کریں لیکن قیمت ادا کرتے وقت اس ملک کی کرنسی کا اعتبار کرنا ہو گا۔ جہاں وہ خود رہائش پذیر ہے۔ نیز اگر رہائشی ملک میں صدقہ فطر لینے والے مساکین نہیں ہیں تو اس صورت