کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 209
ادا کیا جاتا تھا لیکن ہمارے ہاں ان کے علاوہ اور بھی بہت سے خشک پھل پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً: اخروٹ، بادام، خوبانی، مونگ پھلی وغیرہ اگر اس قسم کے پھل حدِ نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر زرعی زکوۃ واجب ہو گی۔ (ھ) کپاس بھی زمینی پیداوار ہے اورہمارے ملک میں خاصی منفعت بخش فصل ہے، لہٰذا اس میں بھی عشر ادا کرنا ہو گا، یعنی بیس من سے ایک من بطورعشر ادا کیاجائے اگرکوئی کاشت کار تجارت پیشہ بھی ہے تواسے چاہیے کہ اگرکپاس کی پیداوار حدنصاب کوپہنچ جائے تواس سے پہلے عشر ادا کرے اورپھر اگراسے تجارت میں فروخت کردیتا ہے تواس کی رقم حدنصاب کوپہنچ جائے توتجارتی زکوٰۃ بھی ادا کرے، یعنی کھیتی کاحساب علیحدہ ہوگا اورتجاری مال کی زکوٰۃ کاحساب الگ ہوگا ۔تجارتی مال کی رقم، خواہ کہاں سے بھی آئے، اس سے زکوٰۃ ادا کرناضروری ہے۔ کپاس کاذکرحدیث میں بھی ہے، چنانچہ ابیض بن حمال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور صدقہ وغیرہ کی معافی کے لئے درخواست کی توآپ نے فرمایا: ’’اے قوم سبا سے تعلق رکھنے والے! صدقہ کی ادائیگی ضروری ہے۔‘‘ پھراس نے مزید وضاحت کی کہ ہم تو صرف کپاس کاشت کرتے ہیں اورسبا پرجب آفت آتی ہے تومارب مقام پرتھوڑی بہت کپاس کاشت ہوتی ہے ۔پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سترجوڑے سالانہ وصول کرنے پر اس سے صلح کرلی۔ [ابوداؤد ،الخراج :۳۰۲۸] مختصریہ ہے کہ کپاس سے بھی عشر دیناہوگا۔ (و) ہمارے بعض علاقوں میں گنابھی کاشت کیاجاتا ہے۔ اگر اسے ملوں کوفروخت کردیاجائے تواس پر تجارتی زکوٰۃ ہوگی اوراگر اسے بطورچارہ استعمال کرلیاجائے توقابل معافی ہے، اگراس کماد سے گڑ شکریاچینی بنائی جائے تواس سے عشر دیناہوگا بشرطیکہ حدنصاب کوپہنچ جائے۔ (ز) اگرکسی نے اپنی زمین کسی دوسرے کوعاریۃً برائے کاشت دی ہے تواس صورت میں جس نے فصل کاٹی ہے وہی اس کا عشروغیرہ اداکریگا ۔مالک زمین کے ذمے اس کی ادائیگی نہیں ہے کیونکہ اسے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ،اگرزمین کے مالک نے کسی دوسرے کوطے شدہ حصے پر کاشت کرنے کے لئے دی ہے تواس صورت میں دوموقف ہیں : 1۔ ہرایک کاحصہ اگرحدنصاب کوپہنچ جائے تواس سے عشر دیناہوگا اگرکسی کابھی حصہ نصاب تک نہیں پہنچتا توکسی پر عشرواجب نہیں، یعنی جس شخص کاحصہ حدنصاب کوپہنچ جائے گا اسے اپنے حصے سے عشردیناہوگا۔ 2۔ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کایہی موقف ہے کہ اگر مجموعی پیداوار حدنصاب کوپہنچ جائے توہرایک اپنے حصے کے مطابق عشر دے گا یاعشرادا کرنے کے بعد دونوں طے شدہ حصوں کے مطابق پیداوار کوتقسیم کرلیں گے ۔ ہمارے نزدیک یہ دوسراموقف وزنی معلوم ہوتا ہے، نیز اس میں غرباء ومساکین کابھی فائدہ ہے۔ خیبر کی زمین بھی پیداوار کے لئے طے شدہ حصے کے عوض کاشت کی جاتی تھی چونکہ یہودی عشرادا کرنے کے پابند نہیں تھے اس کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو حصہ ملتا اگر وہ حدنصاب کو پہنچ جاتا تواس سے اللہ تعالیٰ کاحصہ الگ کردیتے تھے۔ اگرزمین کوٹھیکے پردے دیاجائے توزمیندار چونکہ زمین کامالک ہوتا ہے وہ ٹھیکے کی اس رقم کواپنی مجموعی آمدنی میں شامل کرکے زکوٰۃ ادا کرے گا ۔بشرطیکہ وہ نصاب کوپہنچ جائے اوراس کی ضروریات سے فاضل ہواور اس پرسال بھی گزرجائے ۔زمین ،ٹھیکے پرلینے والاکاشت کرنے میں خودمختار ہوتا ہے اورپیداوار کا