کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 208
واضح رہے کہ اس کے علاوہ جتنے بھی اخراجات ہیں ان کاتعلق زمین کی سیرابی یاآبپاشی سے نہیں بلکہ وہ اخراجات زمیندار پیداوار بچانے یابڑھانے کے لئے کرتا ہے، مثلاً: کھاد یاسپرے وغیرہ یاپھر زمیندار اپنی محنت ومشقت سے بچنے اور اپنی سہولت کے پیش نظر کرتا ہے، مثلاً: بوتے وقت ٹریکٹر کا استعمال ،کٹائی کے وقت مزدور لگانا، فصل اٹھاتے وقت تھریشر وغیرہ کا استعمال۔ مذکورہ حدیث میں مقدار جنس کوبیان کیاگیا ہے، یعنی کتنے نصاب پرعشر واجب ہوتاہے؟ ا س کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ پانچ وسق سے کم پیداوار میں زکوٰۃ، یعنی عشر نہیں ہے۔‘‘ [صحیح بخاری، الزکوٰۃ:۱۴۸۴] عشر کے لئے یہ غلہ کانصاب ہے، اس سے کم پرعشر دیناضروری نہیں کیونکہ اس سے کم مقدار توکاشتکار یازمیندار کے گھرکاسالانہ خرچہ ہی تصور کیاجائے گا ۔ہاں، پانچ وسق یااس سے زیادہ عشرواجب ہوگا ایک وسق ساٹھ صاع کاہوتاہے گویاجنس کانصاب 300صاع ہوتا ہے۔ جدید اعشاری نظام کے مطابق ایک صاع 2کلو 100گرام کاہوتا ہے اس حساب سے پانچ وسق کے 630 (چھ صدتیس) کلوگرام ہوتے ہیں جبکہ بعض اہل علم کے نزدیک ایک صاع اڑھائی کلوکے مساوی ہوتا ہے، لہٰذا ان کے ہاں نصاب 630کلوگرام مقرر کیاجانا زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ شریعت نے مقدارعشر کے لئے زمین کی سیرابی کومدار بنایا ہے۔ اس کے علاوہ جوبھی اخراجات ہیں ان کاتعلق مقدارعشر سے نہیں ،لہٰذا جہاں زمین کی سیرابی کے لئے قدرتی وسائل ہوں وہاں پیداوار سے دسواں حصہ (عشر)لیاجائے گا اورجہاں زمین کوسیراب کرنے کے لئے قدرتی وسائل نہیں بلکہ محنت ومشقت اوراخراجات کرناپڑیں تووہاں بیسواں حصہ، یعنی نصف عشردینا ہوگا ،ہمارے ہاں عام طور پرپیداوار کابیسواں حصہ دیاجاتا ہے۔ پیدا وار سے دسواں حصہ دینے والی زمین بہت کم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عام طور پرمہاجرین تجارت اورانصار زراعت پیشہ تھے۔ وہ لوگ زمین کوخودکاشت کرتے تھے اور خود ہی کاٹتے اورفصل اٹھاتے تھے۔ زمین کی سیرابی کے لئے محنت ومشقت اور اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے انہیں پیداوار سے بیسواں حصہ بطور عشرادا کرناضروری تھا ۔اس کے علاوہ کسی قسم کے اخراجات پیداوار سے منہانہیں کئے جاتے تھے۔ اب عشر کے متعلق کچھ مزید وضاحتیں پیش خدمت ہیں: (الف) زرعی زکوٰۃ کے لئے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ جب بھی فصل کاٹی جائے اس وقت زکوٰۃ واجب ہو گی، جیسا کہ درج ذیل آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے: ’’فصل کاٹتے وقت ہی اس سے اللہ کاحق ادا کرو۔‘‘ [۶/الانعام :۱۴۱] (ب ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گندم ،جو،منقیٰ اورکھجور سے زکوٰۃ لی جاتی تھی ،مگرہمارے ہاں اوربھی اجناس بکثرت پیدا ہوتی ہیں، مثلاً: چاول، چنے، جوار، باجرہ اورمکئی وغیرہ ان سب اجناس پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے ۔ (ج ) ایسی سبزیاں اورترکاریاں جوجلدی خراب نہیں ہوتیں، مثلاً: آلو، پیاز، لہسن، ادرک اور پیٹھا وغیرہ۔ ان پرزرعی زکوٰۃ، یعنی عشر واجب ہوگا۔ لیکن جوترکاریاں تازہ استعمال ہوتی ہیں اورجلدی خراب ہوجاتی ہیں، مثلاً: کدو، ٹینڈا، کریلے اورتوریاں وغیرہ ان پرزرعی زکوٰۃ نہیں بلکہ سال کے بعد ان کے منافع پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوتی ہے، یعنی اڑھائی فیصد یاچالیسواں حصہ ادا کرنا ہوتا ہے ۔ (د) پھلوں میں بھی زرعی زکوٰۃ ہے۔ بشرطیکہ انہیں دیر تک استعمال کیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں منقیٰ اور کھجور سے عشر