کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 197
ہو۔اس مدت سے پہلے اگرکسی صورت میں ساقط ہوجائے تو اس کی نمازجنازہ نہیں پڑھی جائے گی کیونکہ میت کہلاہی نہیں سکتا ۔جس روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب ناتمام چیخ پڑے تواس کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی اوراسے وارث بھی بنایا جائے گا یہ روایت قابل استدلا ل نہیں ہے۔ [احکام الجنائز:ص۸۱] البتہ وارث بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ زندہ پیداہو ۔امام ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بچہ جب زندہ پیدا ہواورچیخ پڑے بعد میں اسے موت آجائے تواس کی نمازجنازہ بالاتفاق جائز ہے اورچیخ مارے بغیر مردہ پیداہوتواس کے متعلق امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگرحمل کے چار ماہ بعد پیداہوا ہے تواسے غسل بھی دیاجائے گا اوراس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جاسکتی ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کاایک نواسہ مردہ پیداہوا تھا توآپ نے اس کی نمازجنازہ پڑھی تھی ۔ [ مغنی لابن قدامہ، ص:۴۵۸،ج ۳] مردہ بچے کی نمازجنازہ پڑھتے وقت اس کے والدین کے لئے مغفرت اوررحمت کی دعا کرنی چاہیے نیز اسے مسلمانوں کے قبرستان میں ہی دفن کرناچاہیے ۔ [واللہ اعلم ]  اگرکوئی شخص نمازظہر کے فرض یاسنت پڑھ رہاہو ،اس کے دوران ہی امام صاحب نماز جنازہ کھڑی کر دیں توجنازہ میں شامل ہوناچاہیے یانہیں، یا اپنی نمازکو جاری رکھنا چاہیے ،نیزاگرکسی سے نمازجنازہ کی ایک یادوتکبیریں رہ جائیں تووہ کیا کرے سورت فاتحہ اوردرود شریف پڑھے گا یانہیں؟  اگرکوئی فرض یاسنت یانوافل پڑھ رہاہے اس دوران مساجد میں جنازہ آجائے تواسے آتے ہی شروع نہیں کردیاجاتا بلکہ چند منٹ تک دوسرے لوگوں کاانتظار کیاجاتا ہے ،یاوضو کرنے کے لئے لوگوں کوکچھ مہلت دی جاتی ہے۔ اس دوران نمازپڑھنے والااپنی نماز پوری کرسکتا ہے اگرکبھی ایسی صورت بن جائے جس کاسوال میں ذکر کیاگیا ہے تونمازی کوچاہیے کہ نمازختم کرکے نمازجنازہ میں شامل ہوجائے ۔اس سے فراغت کے بعد اپنی نمازپڑھ لے کیونکہ جنازہ کی تلافی نہیں ہوسکے گی جبکہ نماز کی تلافی ممکن ہے اوراگر نماز جاری رکھے توبھی اس کے لئے جائز ہے کیونکہ جنازہ میں شمولیت ضروری نہیں ہے تاہم بہتر ہے، کہ جنازہ میں شمولیت اختیار کرکے اضافی ثواب حاصل کرے ۔اس طرح اگرکسی سے جنازہ کی ایک یا دوتکبیریں رہ جائیں توان کی قضا کے متعلق بھی متقدمین میں اختلاف ہے ۔بعض حضرات امام کے سلام کے بعد فوت شدہ تکبیرات کوپوراکرنے کے قائل و فاعل ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نماز کاجوحصہ تمہیں مل جائے اسے پڑھ لو اورجورہ جائے اسے بعد میں پوراکرلو۔ [صحیح بخاری، الاذان : ۶۳۶] جبکہ بعض حضرات کاموقف ہے کہ وہ امام کے ساتھ ہی سلام پھیردے ۔فوت شدہ تکبیرات کی قضا ضروری نہیں، جیسا کہ عیدین کی تکبیرات رہ جانے کی صورت میں انہیں بعد میں پورا نہیں کیاجاتا، نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ نمازجنازہ کی تکبیرات کے قائل نہیں تھے ۔ [مصنف ابن ابی شیبہ، ص:۳۰۶،ج ۳ ] ہمارے نزدیک فوت شدہ تکبیرات کی قضا ضروری ہے کیونکہ پہلی تکبیرکے بعد فاتحہ پڑھی جاتی ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ دوسری تکبیرکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردرودپڑھناہے وہ بھی نمازجنازہ کاحصہ ہے، انہیں عیدین کی تکبیرات پرقیاس کرنادرست نہیں ہے کیو نکہ عیدین کی تکبیرات میں کوئی خاص ذکر پڑھنے کااہتمام احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ اس لئے نمازجنازہ