کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 190
کے الفاظ ہی یاد کرو۔‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم دی ہوئی دعامیں ترمیم کوآپ نے قبول نہ فرمایا، لہٰذا ہمارے نزدیک نمازجنازہ میں مرداورعورت کاخیال کرتے ہوئے ضمائر کو بدلنا یاواحد اورجماعت کے پیش نظر مفرد کے صیغے کوجمع لاناصحیح نہیں ہے ۔ اس لئے امام کوچاہیے کہ آیت کریمہ پڑھتے وقت اگرمقتدیوں کوشامل کرنا ہے توالفاظ وہی پڑھے ،جوآیت میں موجودہیں ۔انہیں بدلنے کے بجائے مقتدی حضرات کونیت میں شامل کرے۔ [واللہ اعلم ] سوال: مجھے اﷲ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن مجید سے انتہائی محبت ہے ۔پانچ وقت نماز باقاعدگی سے ادا کرتی ہوں میری دوست کابھائی حافظ قرآن اورپابند شریعت ہے ۔میں نے اس سے متاثر ہوکررابطہ کیااوردل میں اس کے متعلق محبت محسوس کی، لیکن معاشرتی طورپر اپنے والدین کی مرضی کے بغیر ہم اکٹھے نہیں ہوسکتے ۔ کیامیں ایسے شخص کو اﷲ سے مانگ سکتی ہوں، اگرچہ یہ پوچھنے والی بات نہیں مگر میں نہیں چاہتی کہ اﷲ اس بندے کو میرے لئے شربنادے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’انسان برائی کے لئے ایسے ہی دعا کرتا ہے، جیسے بھلائی کے لئے دراصل انسان بڑاجلد باز واقع ہوا ہے۔‘‘ [۱۷/بنی اسرائیل؛۱۱] آپ چونکہ عالم دین اور علما کی نمایندگی کرتے ہیں اورمیں آپ کی بیٹیوں جیسی ہوں، اس لئے میرے اس سوال کونظر انداز نہ کریں شاید آپ کے جواب سے دوسروں کابھلاہوجائے؟ جواب: قارئین کرام! مجھے یہ سوال موبائل سے ایک پیغام کی صورت میں موصول ہوا ہے جوتقریباً دوصفحات پرمشتمل تھا اوراردو لکھنے کے لئے انگریزی زبان کواستعمال کیاگیا تھا، میں نے اپنے طورپر اسے مختصر کیاہے میں اس پیغام کے حوالہ سے والدین سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنی اولاد پرگہری نظر رکھیں، ان کی بظاہر پارسائی اوردینداری پر اکتفا نہ کریں اس پیغام میں بظاہر دینداری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اس سمندر کی طرح ہے جس کی سطح پرخاموشی ہوتی ہے لیکن اس کی تہہ میں طوفان برپاہوتا ہے، آپ اپنی اولاد کی محبت میں اس حدتک گرفتار نہ ہوں کہ آپ کوان کی ہرجائز وناجائز خواہش کوپورا کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی ازواج مطہرات کی خواہش کومدنظر رکھتے ہوئے اﷲ کی حلال کردہ چیز کو خود پرحرام ٹھہرالیا تھا تو اﷲ نے پوری ایک سورت نازل فرما کراس کا نوٹس لیا، اس سورت کوبایں الفاظ شروع فرمایا: ’’اے نبی! جس چیز کواﷲ نے آپ کے لئے حلال کیا آپ اسے حرام کیوں ٹھہراتے ہیں کیا آپ اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہیں ۔‘‘ [۶۶/التحریم :۱] اس سورت میں مرکزی پیغام حسب ذیل ہے ’’اے ایمان والو!اپنے آپ کواور اہل وعیال کواس آگ سے بچاؤ جس کاایندھن لوگ اورپتھر ہیں، اس پر تندخو اورسخت گیر فرشتے تعینات ہیں ۔‘‘ [۶۶/التحریم:۶] بلاشبہ دورحاضر میں موبائل فون ایک مفید ایجاد ہے، لیکن یہ اب ضرورت کی حدود تجاوز کرکے فضولیات میں داخل ہوچکا ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال موجودہ ’’پیغام ‘‘ہے، آخر اس بیٹی نے موبائل کے ذریعے اپنی دوست کے بھائی سے رابطہ قائم کیا ،جب کسی وجہ سے ناکامی ہوئی تودینداری کاسہارا اوڑھ لیا گیا ہے، دراصل یہ ہمارا (والدین) کا قصور ہے کہ ہم نے اس اولاد کی محبت میں گرفتار ہوکر بچے کے ہاتھ میں موبائل دے دیا ہے بلکہ کچھ ’’سمجھ دار‘‘بچے ٹیوشن وغیرہ پڑھاکر اس سلسلہ میں خود کفیل ہوچکے ہیں اس کے متعلق وہ والدین کے بھی محتاج نہیں ہیں ۔بہرحال اگروالدین محسوس نہ کریں تومیں عرض کروں گا کہ موجودہ دور میں موبائل