کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 182
جاتاہے۔ اس حدیث اورعمل کے متعلق وضاحت فرمائیں؟ جواب: صاحب مشکوٰۃ نے اس روایت کو امام بیہقی رحمہ اللہ کی معروف کتاب ’’شعب الایمان ‘‘کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مذکورہ روایت مرفوع نہیں بلکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوف ہے، یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان نہیں ہے بلکہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کاقول اورعمل ہے ۔ شعب الایمان کودیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اسے مرفوع روایت کے طورپر بیان کیا ہے۔[شعب الایمان، ص :۳۰۹،ج ۱۶] لیکن اس روایت میں ایک راوی یحییٰ بن عبداﷲ البابلتی انتہائی ضعیف ہے۔ [تہذیب، ص: ۲۳۰ج۱۱ ،میزان ص:۳۹۰،ج ۴] چنانچہ اس روایت کوعلامہ ہیثمی نے بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اسے امام طبرانی نے معجم کبیر میں بیان کیا ہے لیکن اس کی سند میں یحییٰ بن عبداﷲ البابلتی راوی ضعیف ہے۔ [مجمع الزوائد، ص: ۴۴ج، ۳] اس کے علاوہ مذکورہ راوی کاشیخ ایوب بن نہیک الحلبی بھی ضعیف ہے ۔تفصیل کے لئے اس حدیث پر محدّث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ کی تعلیق دیکھئے ۔ [مشکوٰۃ مع تعلیق البانی ،ص:۵۳۸،ج ۱] صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً بیان ہوئی ہے، جیسا کہ صاحب مشکوٰۃ نے امام بیہقی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے اورانہوں نے خودبھی شعب الایمان میں وضاحت کی ہے، چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی ایک دوسری کتاب میں عبدالرحمن بن علَّاء بن اللجلاج کے حوالہ سے اس عمل کوبیان کرکے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اس عمل کوپسند کرتے تھے۔ [السنن الکبریٰ، ص:۵۶، ج ۴] اس کے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ موقوف روایت بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس میں عبدالرحمن بن علاَّء اللجلاج راوی مجہول ہے۔ [احکام الجنائز، ص: ۱۹۲، حاشیہ نمبر ۲] مجہول راوی کون ہوتا ہے اور اس کی بیان کردہ روایت کاکیا حکم ہے ؟اس کے متعلق کچھ تفصیل پیش خدمت ہے۔ محدثین کرام نے اسباب ضعف کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ راوی کی جہالت بھی حدیث کے ناقابل قبول ہونے کاایک سبب ہے۔ راوی کی جہالت یہ ہے کہ اس کے متعلق متعین طورپر عدالت وجرح کاپتہ نہ چل سکے۔ [نزہتہ النظر ،ص:۴۴] اس قسم کی جہالت جس راوی میں پائی جائے اسے مجہول کہتے ہیں اس کی دواقسام حسب ذیل ہیں : (الف ) مجہول العین: جس کی توثیق نہ کی گئی ہواوراس سے بیان کرنے والا صرف ایک راوی ہو۔ (ب) مجہول الحال: جس کی توثیق نہ کی گئی ہو اوراس سے دویادو سے زیادہ راوی بیان کریں اسے مستور بھی کہتے ہیں ۔ [نزہتہ النظر، ص:۵۰] مجہول راوی کی روایت کے متعلق اکثر محدثین کاموقف ہے کہ اس کی بیان کردہ روایت قابل قبول نہیں ہوگی اورنہ ہی اسے بطوردلیل پیش کیاجاسکتا ہے۔ [فتح المغیث، ص:۳۱۹، ج۱] اس وضاحت کے بعد ہم مذکورہ موقوف روایت کاجائز ہ لیتے ہیں توپتہ چلتا ہے کہ اس میں بھی ایک راوی عبدالرحمن بن علاَّء