کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 173
بعض روایات میں پانچ راتوں کے بجائے چارراتوں کے الفاظ ہیں،اس روایت میں عبدالرحیم بن زید العمی راوی کذاب ہے اوراس سے بیان کرنے والا سوید بن سعید بھی سخت ضعیف ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت پرموضوع ہونے کاحکم لگایا ہے ۔ [سلسلہ الاحادیث الضعیفہ، ص: ۱۲،ج ۱] بعض روایات میں عیدالفطر کی رات کو’’لیلۃ الجائزہ ‘‘کے نام سے ذکر کیاگیا ہے۔ اسے ابن حبان نے اپنی تالیف کتاب الثواب میں نقل کیا ہے حافظ منذری رحمہ اللہ نے بھی اس کاحوالہ دیا ہے یہ ایک طویل حدیث ہے جس کے الفاظ ہی اس کے موضوع ہونے پردلالت کرتے ہیں۔حافظ منذری رحمہ اللہ نے بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ [الترغیب، ص:۱۰۰، ج ۱] بہرحال ہمارے ہاں بعض بزرگ ان راتوں میں عبادت کاخاص اہتمام کرتے ہیں جبکہ اس سلسلہ میں مروی احادیث قابل اعتماد نہیں ہیں، جیسا کہ گزشتہ سطور میں وضاحت کی گئی ہے ۔ [واﷲ اعلم] سوال: جمعہ کے دن دو اذانیں کیوں دی جاتی ہیں کیاایسا کرنارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟ جواب: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک اور حضرت ابو بکر صدیق، اور حضرت عمر فاروق، اورحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے ابتدائی دور خلافت میں جمعہ کے دن ایک ہی اذان ہوتی تھی۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورحکومت میں جب مدینہ کی آبادی میں اضافہ ہواتوآپ نے لوگوں کی سہولت کے پیش نظر ’’زوراء‘‘ نامی پہاڑی پر پہلی اذان دینے کااہتمام کردیا ،اس پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اعتراض بھی کیا تھا، تاہم یہ سلسلہ جاری رہا ،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں صرف ایک اذان کوہی برقرار رکھا، اس پہلی اذان کی آج کوئی ضرورت نہیں ہے، تاہم جہاں فتنہ فساد کااندیشہ ہووہاں عثمانی اذان کوبرقرار رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [واﷲاعلم ] سوال: جمعہ کے دن دوران خطبہ جھولی اٹھاکرمسجدکی ضروریات کے لئے چندہ جمع کرناشرعاًکیساہے؟ جواب: خطبہ جمعہ بھی نماز کی طرح ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے کہ ’’دوران خطبہ اگرکسی نے شورکرنیوالے کو خاموش رہنے کاکہاتوخاموشی کی تلقین کرنے والے نے خودایک لغواوربے ہودہ فعل کاارتکاب کیاہے۔‘‘ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب خاموش کروا نے والے کے متعلق اس قدر شدیدو عیدہے ،تومصروف گفتگورہنے والاکس قدر سنگین جرم کامرتکب ہو رہا ہے، اس بنا پر دوران خطبہ سامعین اورحاضرین کوصرف خطبہ کی طرف توجہ رکھنا چاہیے ۔چندہ وغیرہ اکٹھاکرنا سامعین کی توجہ کومنتشرکرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لئے یہ حرکت بھی دوران خطبہ نہیں کرنی چاہیے، البتہ اگرکوئی ہنگامی ضرورت آپڑ ی ہے توامام کوچاہیے کہ وہ خود اس کااعلان کرے اورحاضرین کوترغیب دے، لیکن اس کے لئے بھی حاضرین کونام بنام آواز دینے، پھرسامعین کی گردنیں پھلانگ کر فورًا چندہ دینے کی ضرورت نہیں بلکہ نماز سے فراغت کے بعد اطمینان اورسکون سے حسب استطاعت اس کارخیر میں حصہ ڈالا جا سکتا ہے۔ صورت مسئولہ میں جس طرح سوال اٹھایا گیا ہے اگرواقعی چندہ جمع کرنے کی یہی سورت ہے توایسا کرنامسجد کے تقدس اوراحترام ووقار کے بہت منافی ہے کہ انسان جھولی پھیلاکر لوگوں کے سامنے آئے اورمسجد کے لئے چندہ جمع کرے ،اہل مسجد کوچاہیے کہ مسجد کی ضروریات کوپوراکرنے کے لئے کوئی اورباعزت طریقہ اپنائیں یادرہے کہ امام کے منبر پر کھڑاہونے سے لے کر نماز کے لئے کھڑا ہونے تک سب خطبہ ہی شمارہوتا ہے یہ وضاحت، اس لئے ضروری ہے کہ بعض مقامات پردونوں خطبوں کے درمیان وقفہ لمباکرکے یہ ’’فریضہ ‘‘سرانجام دیاجاتا ہے، لہٰذااس سے بھی اجتناب کرناچاہیے۔ [واللہ اعلم]