کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 172
جمعہ کی نماز پڑھائی تواس میں سورۂ جمعہ اورسورۂ منافقون کوتلاوت کیااورفرمایا میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کوجمعہ کی نماز میں ان سورتوں کو پڑھتے ہوئے سناہے۔ [صحیح مسلم، الجمعہ: ۸۷۷] ان احادیث کے پیش نظر ہمارے خطبا حضرات کو چاہیے کہ وہ نماز جمعہ میں ان سورتوں کومکمل پڑھنے کا التزام کریں ،سوال میں ذکر کردہ جس آیت کاحوالہ دیا گیا ہے اس کے عموم کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے ،البتہ اگرکوئی ان سورتوں کونامکمل پڑھتا ہے یاان کے علاوہ دوسری سورتوں کونماز میں پڑھتا ہے تواس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں، اگر چہ سنت پرعمل کرنے کے لئے ثواب سے محرومی ہو گی، تاہم ایسا کرنے کا جواز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک باب بایں الفاظ میں قائم کیا ہے: ’’دو سورتوں کوایک رکعت میں جمع کرنا یاکسی سورت کی ابتدائی یا آخری آیات پڑھنا یاموجودہ ترتیب کے خلاف پڑھنایہ جائز ہے۔‘‘ پھر آپ نے اس کے جواز کے لئے چند ایک روایات اورآثا ر بھی پیش کئے ہیں۔ [صحیح بخاری، الاذان: ۱۰۶] البتہ سنت کے احیا کاتقاضا ہے کہ خطبا حضرات عیدین اورجمعہ کی نماز میں وہی سورتیں پڑھنے کی پابندی کریں جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے تاکہ اہل حدیث کی علامت اورامتیازی حیثیت برقرار رہے ۔ [واﷲ اعلم] سوال: بعض اہل حدیث مصنفین حضرات نے درج ذیل احادیث کواپنی تالیفات میں ذکر کیا ہے ان کی اسنادی حیثیت کے متعلق وضاحت کریں ۔ 1۔ جس نے عید ین کی دونوں راتوں میں اخلاص اورحصول ثواب کی نیت سے قیام کیاتو اس کادل،اس دن زندہ رہے گا جس دن دل مردہ ہوجائیں گے ۔ 2۔ جوپانچ راتوں میں عبادت کرے گا اس کے لئے جنت واجب ہوجائے گی ۔ذوالحجہ کی آٹھویں ،نویں اوردسویں رات ،عید الفطرکی رات اورشعبان کی پند رھویں رات ۔ جواب: پہلی روایت موضوع ہے کیونکہ اس میں ایک راوی عمربن ہارون ا لبلخی ہے۔ جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ابن معین نے اسے کذاب کہا ہے اورمحدثین کی ایک جماعت نے اسے متروک قرار دیا ہے۔‘‘ [تلخیص المستدرک، ص:۸۷، ج۴] میزان الاعتدال میں اس کے متعلق ’’کذاب خبیث ‘‘کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ [میزان الاعتدال، ص:۲۲۸، ج ۳] علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے خود ساختہ اور بناوٹی بتایا ہے۔ [سلسلہ الاحادیث الضعیفہ، ص ۱۱، ج۲] مذکورہ الفاظ سنن ابن ماجہ کے ہیں اس میں بقیع بن ولیدنامی ایک راوی سخت مدلس ہے۔ محدثین کرام نے اس کی تدلیس سے اجتناب کرنے کی تلقین کی ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: عیدکی رات رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک سوئے رہے اورآپ نے شب بیداری نہیں فرمائی ،عیدین کی رات عبادت کرنے کے متعلق کوئی صحیح روایت مروی نہیں ہے ۔ [زاد المعاد، ص:۲۱۲،ج۱] دوسری روایت کوعلامہ منذری رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ [الترغیب والترہیب: ۱۵۲/۲] علامہ منذری رحمہ اللہ نے اس کے موضوع یاضعیف کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کیونکہ انہوں نے بصیغۂ تمریض بیان کیا ہے۔