کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 165
یہ روایت عیدین کے دوخطبوں کے لئے اگرچہ صریح اورواضح ہے لیکن صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ روایت سند اورمتن کے اعتبار سے ’’منکر ‘‘ہے اور محفوظ یہ ہے کہ اس کا تعلق جمعہ کے خطبہ سے ہے۔[ضعیف ابن ماجہ، ص: ۹۴] اس روایت کے ناقابل حجت ہونے پر درج ذیل وجوہات ہیں: ٭ اس روایت میں ایک راوی اسماعیل بن مسلم ہے جس کے متعلق محدثین کا فیصلہ ہے کہ وہ ضعیف ہے،چنانچہ علامہ بوصیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس روایت میں اسماعیل بن مسلم راوی ہیں جس کے ضعف پرتمام محدثین کااتفاق ہے۔ [زوائد ابن ماجہ ،ص:۴۰۹، ج ۱] علامہ ساعاتی نے بھی اس ’’اتفاق محدثین ‘‘کونقل کیا ہے ۔ [فتح الربانی ،ص:۱۵۵،ج ۶] ٭ علامہ بوصیری نے اس روایت کے ایک دوسرے راوی ابو الحبر کے متعلق بھی لکھا ہے کہ وہ ضعیف ہے۔ (ابن ماجہ حوالہ مذکورہ) ٭ اس روایت میں ابو الز بیر راوی مدلس ہے،جوحضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتاہے کہ اس میں تصریح سماع نہیں، اس بنا پر بھی روایت کاضعف برقرار ہے ۔ ٭ امام نسائی نے اس روایت کونقل کیا ہے لیکن اس میں ’’یوم الفطر اور یوم الاضحیٰ‘‘ کے الفاظ بیان نہیں ہوئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روایت کے مذکورہ صریح الفاظ محفوظ نہیں بلکہ کسی راوی کے وہم کانتیجہ ہیں۔ [نسائی، العیدین:۱۲۵۷] ٭ اس مؤقف کے متعلق تیسری روایت جوبطوردلیل پیش کی جاتی ہے حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عیدین اذان اوراقامت کے بغیر ادا کی اورآپ کھڑے ہوکر دو خطبے دیتے اوردونوں کے درمیان بیٹھ کر فصل فرماتے۔ کشف الاستارعن زوائد البز ار:۶۵۷] یہ روایت بھی قابل حجت نہیں ہے کیونکہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بزار رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’’وجادہ‘‘ کے طور پربیان کیا اور اس کی سند میں ایک ایسا راوی بھی ہے جسے میں نہیں پہچانتا ہوں۔ [مجمع الزوائد، ص:۲۰۳، ج۲ ] ’’وجادہ‘‘ محدثین کی اصطلاح ہے، جس کا یہ مطلب ہے کہ محد ث کسی حدیث کوایک کتاب میں نقل شدہ پاتا ہے اوراس کتاب کے حوالہ ہی سے بیان کردیتا ہے، چنانچہ اس روایت میں ایک راوی احمد بن محمد بن عبدالعزیز ہے جواس حدیث کے متعلق بیان کرتا ہے کہ میں نے اس روایت کواپنے باپ کی کتاب میں پایا، یعنی باپ نے براہِ راست اپنے بیٹے کوحدیث بیان نہیں کی بلکہ بیٹے نے اپنے باپ کی کتاب میں لکھی ہوئی دیکھی اوراسے آگے بیان کرنا شروع کردیا ،مزید برآں محمد بن عبدالعزیز جس کی کتاب سے اس حدیث کودریافت کیا گیا ہے، اس کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ منکراحادیث بیان کرنے والا ہے۔ [لسان المیزان، ص:۲۶۰،ج ۵] واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جس راوی کے متعلق یہ لفظ استعمال کریں اس سے روایت لینا ہی جائز نہیں۔ چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ ، امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ جس راوی کے متعلق آپ یہ الفاظ ذکرکریں اس سے روایت لیناصحیح نہیں ہے۔ [میزان الاعتدال، ص:۶،ج ۱] امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ تینوں بھائی، یعنی محمد بن عبدالعزیز ،عبداﷲ بن عبدالعزیز اورعمران بن عبدالعزیز حدیث کے معاملہ میں کمزور ہیں اوران کی بیان کردہ احادیث صحیح نہیں ہیں۔ [الکامل لابن عدی، ص:۲۲۴۳،ج ۶]