کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 163
آخری وقت زوال آفتاب تک ہے ۔نماز عید کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کاطرزعمل حسب ذیل ہے : حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز فجر پڑھتے، پھراس حالت میں عیدگاہ چلے جاتے ،حضرت سعید بن مسیب بھی ایسا کرتے تھے۔ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں سمیت کپڑے وغیرہ پہن کرتیاری کرکے مسجد کی طرف جاتے نماز فجر پڑھ کر وہیں بیٹھے رہتے ،جب طلوع آفتاب ہوجاتا توچاشت کے دونفل پڑھ کرعید پڑھنے کے لئے عید گاہ چلے جاتے۔حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما دن چڑھے عیدگاہ جاتے۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ بھی عید پڑھنے کے لئے اپنے گھر سے دن چڑھے روانہ ہوتے تھے۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب سورج خوب روشن ہوجائے توعید گاہ جانا چاہیے، البتہ عید الفطر اس سے کچھ وقت پہلے پڑھ لی جائے، یہ تمام آثار [عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ،ص:۱۸۲،ج ۵] سے نقل کے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اس وقت پڑھتے تھے جب سورج دو نیزے کے برابر ہو جاتا، اورنماز عید الاضحی اس وقت پڑھتے جب سورج ایک نیزے کے برابرہوجا تا۔ [تلخیص ،ص:۱۲۷،ج ۲] لیکن اس کی سند میں معلی بن ہلال نامی راوی کذاب ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے ۔ [تمام المنۃ، ص:۳۴۷] ان روایات وآثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عید پڑھنے کاوقت طلوع آفتاب کے بعد ہے اورچاشت کاوقت سورج کے ایک نیزے بلند ہونے پر ہوجاتا ہے ،بلاوجہ اس میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس تاخیر پرانکار کرتے تھے عید الاضحیٰ کے دن قربانی کرنی ہوتی ہے ،اس لئے اسے عید الفطر سے پہلے پڑھنے میں چنداں حرج نہیں ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک مرسل روایت نقل کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران میں تعینات حضرت عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کوخط لکھا تھا کہ عید الاضحی ٰجلدی پڑھا کرو اورعید الفطر کچھ تاخیر سے اد اکرو ۔ [بدائع المنن، ص:۲۷۲،ج ۲] لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ [الر وضۃ الندیہ، ص:۳۶۵، ج۱] آج کل گھڑیوں کادور ہے، اس لئے ہمیں دورحاضر کے مطابق گھڑیوں کاحساب لگانا ہوگا۔ محکمۂ موسمیات کی تصر یحات کے مطابق طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کاوقفہ ہوتا ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ اگرصبح کی اذان پانچ بجے ہوتو تقریبا ً ساڑھے چھ بجے سورج طلوع ہو گا، چاشت کاوقت طلوع آفتاب کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد شروع ہو جاتا ہے، ضرورت کے پیش نظر اس میں مزید کچھ تاخیر کی جاسکتی ہے، اس لئے حضرت عبداﷲ بن بسر رضی اللہ عنہ کی تصریح کے مطابق نماز عید کاوقت نمازچاشت کے وقت ہوتا ہے۔ اس لئے ہماے نزدیک لاہور کے اوقات کے مطابق نماز عید کاوقت سات، ساڑھے سات بجے شروع ہو جاتا ہے، ہمیں چاہیے کہ اس کی تیاری پہلے سے کررکھیں، اگرطلوع آفتاب کے بعد اس کی تیاری کاآغاز کیاتو نماز عید کا وقتِ فضیلت نہیں مل سکے گا،البتہ جواز کاوقت زوال آفتاب تک ممتد ہے ،اب یہ ہماری ہمت ہے کہ ہم نے عید کے لئے وقتِ فضلیت کاانتخاب کرناہے یا وقت جواز کاسہار الینا ہے۔ [واﷲ اعلم ] سوال: کیاامام کوعیدین کے موقع پر جمعہ کی طرح دوخطبے دینا چاہییں یاایک ہی خطبہ کافی ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔