کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 145
بھی اسی حالت میں ادا کرتا ہوں، بعض اوقات برتن سامنے ہوتے ہیں، میں نے سنا ہے کہ کھانے کے برتن اگرسامنے ہو ں تونماز نہیں ہوتی، وضاحت فرمائیں؟ جواب: دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کوصحت وعافیت عطافرمائے۔ حدیث میں ہے کہ جب کھا نا سامنے آجائے اور دوسری طرف نماز کی اقامت ہوچکی ہوتوپہلے کھانے سے فارغ ہوجاناچاہیے، پھرنماز پڑھی جائے۔ [صحیح بخاری ،الاذان :۶۷۳] اس حدیث سے کسی نے یہ مسئلہ کشید کیاہوگا کہ جب کھانے کے برتن سامنے ہوں تونماز نہیں ہوتی ،حالانکہ حدیث میں اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں۔ خواتین اس طرح کے مسئلے گھڑ کررواج دے دیتی ہیں ۔ایسے مسائل کاتعلق ’’دین خواتین ‘‘سے توہوسکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آمدہ دین متین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔فراغت کے بعد اگربرتن سامنے پڑے ہوں تواس سے نماز متاثر نہیں ہوتی۔ البتہ اتنا اہتمام ضرور ہوناچاہیے کہ اگر برتنوں میں کھانا بچا ہوا ہے تواسے ڈھانپ دیا جائے، پھرنماز پڑھی جائے تاکہ کھلے کھانے سے نماز کا خشوع متاثر نہ ہو ۔ [واﷲ اعلم] سوال: مطلع ابرآلود ہونے کی وجہ سے اگرنماز ظہر زوال آفتاب سے پہلے پڑھ لی جائے توا س کا شرعی حکم کیا ہے کیا اسے دوبارہ پڑھنا ہوگا یا وہ ہی نماز کافی ہوجائے گی؟ جواب: قبل ازوقت نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے فرضیت ادا نہیں ہوگی ،بلکہ وقت کے بعد دوبارہ پڑھنا ہوگا ۔اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے ’’بے شک نماز اہل ایمان پر وقت مقرر پرادا کرناضروری ہے ۔‘‘ [النساء :۱۰۳] رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت ظہر کوبایں الفاظ میں بیان کیا ہے ’’ظہر کاوقت جب سورج ڈھل جائے ‘‘ [صحیح مسلم، المساجد :۶۱۲] قرآنی آیت اورارشاد نبوی کے پیش نظر اگرکسی نے مطلع ابرآلودہونے کی وجہ سے نما ز ظہر کوزوال آفتاب سے پہلے پڑھ لیا تواسے دوبارہ پڑھنا ہوگا ،قبل ازوقت پڑھی ہوئی نماز نفل ہوجائے گی ،یعنی اسے نفل نماز کاثواب مل جائے گا ،لیکن موجودہ دور کی ایجادات نے ہمیں سورج کے طلوع وغروب اورزوال سے آزاد کردیا ہے، آج ہرانسان کے پاس گھڑی ہے اگر مطلع ابرآلود ہوتواس سے سورج کی روشنی تومتاثر ہوسکتی ہے لیکن گھڑیاں متاثر نہیں ہوتی ہیں جوہمیں اوقات نماز سے مسلسل آگاہ کرتی رہتی ہیں ۔ [واللہ اعلم] سوال: ہماری مسجد کے امام عرصہ دراز سے امامت کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اب وہ معذورہوچکے ہیں اور کرسی پربیٹھ کر جماعت کراتے ہیں منصب کوکسی صورت میں چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں ہم نے ان کی جگہ پرایک اورامام کابندوبست بھی کیا ہے لیکن پھر بھی مصلیٰ چھوڑنے پرآمادہ نہیں ہیں کچھ جماعتی احباب بھی اس قسم کی صورت حال سے اتفاق کرتے ہوئے اس ’’معذور‘‘ امام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اس سلسلہ میں کیا کرنا چاہیے؟ جواب: بیٹھ کر نماز پڑھنے والے معذور امام کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی اورآپ کے پیچھے باقی حضر ات کھڑے ہوکر نماز ادا کر رہے تھے۔ [صحیح بخاری ،الاذان :۶۸۳] لیکن اس صورت حال پر استمرار اور دوام اچھانہیں ہے، بہتر ہے کہ اہل جماعت اس معذور امام کاوظیفہ الگ سے مقر رکردیں