کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 140
یہ ہے کہ پہلے فوت شدہ نمازوں کو پڑھاجائے اس کے بعد موجودہ نمازیں ادا کی جائیں ۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوۂ خندق کے موقع پر نماز عصرفوت ہوگئی توآپ نے غروب آفتاب کے بعد پہلے عصر پڑھی اس کے بعد نماز مغرب اد اکی۔ [صحیح بخاری ،مواقیت الصلوٰۃ :۵۹۸] اس حدیث پرامام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح عنوان قائم کیا ہے: ’’فوت شدہ نمازوں کوپڑھتے وقت ترتیب کاخیال رکھا جائے ۔‘‘ یہ عنوان اورپیش کردہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ انسان پہلے فوت شدہ نما ز کوپڑھے، پھر موجودہ نماز کواد اکرے ،لیکن اگرکسی نے بھول کریا لاعلمی میں موجودہ نماز کوفوت شدہ سے پہلے پڑھ لیا تواس کی نماز نسیان یالاعلمی کے عذر کی وجہ سے صحیح ہوگی ۔مسئلہ کی مناسبت سے یہ وضاحت کرناضروری ہے کہ قضا نمازوں کی دواقسام ہیں: 1۔ آدمی فوت شدہ نماز کی اس وقت قضا دے جب عذر ختم ہو جائے۔ اس میں نماز پنجگانہ آتی ہیں کہ تاخیر کاعذرختم ہوتے ہی انہیں پڑھ لیاجائے انہیں مزید مؤخر نہ کیا جائے ۔ 2۔ جب نماز فوت ہوجائے تواسے قضا پڑھنے کے بجائے اس کے بدل کی قضادی جائے ،اس قسم کے تحت جمعہ کی نماز آتی ہے جب انسان کاجمعہ فوت ہوجائے یاامام کے ساتھ دوسری رکعت کے سجدہ میں شامل ہواہوتو اس صورت میں اسے ظہر بطور قضا پڑھناہوگی جمعہ کی نماز کے لئے کم از کم رکعت پانا ضروری ہے کیونکہ حدیث میں ہے جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے نماز کو پالیا۔ [صحیح بخاری، المواقیت:۵۸۰] اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے نماز جمعہ ایک رکعت سے کم پائی تواس نے جمعہ نہیں پایا، لہٰذا جمعہ کے بجائے اسے اب ظہر کی قضا دیناضروری ہوگا ۔ [واﷲ اعلم ] سوال: اگرصبح کی جماعت کھڑی ہے توکیاصبح کی سنتیں ایک طرف ہوکر پڑھی جاسکتی ہیں؟ جواب: حدیث میں ہے ’’اِذَا اُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَلاَ صَلٰوۃَ اِلاَّ الْمَکْتُوْبَۃَ ‘‘ [صحیح مسلم، صلوٰۃ المسافرین: ۱۶۴۴] یعنی ’’جب فرضوں کی اقامت ہوجائے اس وقت سوائے فرض نماز کے اورکوئی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب فرضوں کی تکبیر ہوجائے تواس وقت سنت پڑھناجائز نہیں ہے اس میں صبح کی سنتیں بھی شامل ہیں، اس لیے مسجد کے کسی کونے یاستون کے سامنے یا صف کے پیچھے یامسجد کے باہر دروازے کے قریب کسی جگہ پرانہیں ادا کرنا درست نہیں ہے بلکہ جماعت میں شامل ہوکر فرض نماز ادا کریں اور اس سے فراغت کے بعد سنتیں ادا کرنی چاہییں، اس کاجواز احادیث میں ملتا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ دوران نماز سنتیں پڑھنے والے کو سزا دیا کرتے تھے۔ [معالم السنن، ص:۷۷ج۸] سوال: اگرامام جہری نمازوں میں کسی بڑی سورت سے چند آیات کی قراء ت کرتا ہے توکیا اسے مضمون اور ترجمہ کا خیال رکھنا چاہیے یا نہیں، بعض اوقات امام کسی آیت پر قراء ت ختم کردیتا ہے، حالانکہ اس آیت کاتعلق آیندہ آیات سے بھی ہوتا ہے؟ جواب: نما ز میں قراء ت کے متعلق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کاعام معمول یہی تھا،کہ آپ ہر رکعت میں مکمل سورت تلاوت کرتے تھے، تاہم سورت کاکچھ حصہ یابعض آیات کی تلاوت بھی کتب حدیث میں مروی ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’دوسورتیں ایک رکعت میں پڑھنا سورتوں کی آخری آیات یا ابتدائی آیت یاسورتوں کو تقدیم