کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 131
اوررسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ درمیانہ تشہد چھوڑ دیا اور تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوگئے تو آپ نے اس کی تلافی کے لئے آخر میں صرف دوسجدے کرلئے ۔ [صحیح بخاری ،مسلم، السہو:۱۲۲۴] امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کوا س بات کے لئے دلیل بنایا ہے کہ پہلا تشہد ضروری نہیں ہے کیونکہ ایک دفعہ رہ جانے کے بعد اس کااعادہ نہیں کیا بلکہ دوسجدوں کوہی کافی خیال کیا ہے ۔ [صحیح بخاری،الاذان: ۸۲۹] سجدہ نماز کارکن ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی ادائیگی کاحکم دیا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو!تم رکوع اورسجدہ کرو۔‘‘ [۲۲/الحج: ۷۷] رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کوسجدہ اچھی طرح کرنے کاحکم دیا تھا جس نے جلدی سے نماز کوادا کرلیاتھا، اس لئے رکن کے رہ جانے سے پہلے رکن ادا کرنا ہو گا، پھرسجدہ سہو کیے جائیں، جیسا کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کی ایک رکعت بھول کرچھوڑدی، پھروہ رکعت ادا کی اوربعد میں سجدہ ہائے سہوکیے۔‘‘ [صحیح مسلم، المساجد: ۵۷۴] جس رکعت میں سجدہ یارکوع رہ جائے وہ رکعت شمارنہیں ہوگی ،اگرکسی کا سجدہ یارکوع رہ جائے تو مکمل رکعت ادا کرناہوگی، پھر دوسجدے بطورسہو ادا کیے جائیں گے، اگر سلام کے فوراًبعد یاد آئے تواسی رکعت کا اعادہ کافی ہوگا ۔اگر نماز کے کافی دیربعد یاد آئے جبکہ امام اورمقتدی مسجد سے چلے گئے یادنیاوی گفتگو میں مصروف ہوگئے تومکمل نماز کا اعادہ کرناہوگا۔آخر میں سجدہ سہودونوں صورتوں میں کرناہوں گے ۔صورت مسئولہ میں اگر سلام کے فوراًبعد یاد آجائے توایک رکعت پڑھ کر سجدہ ہائے سہو کر لیے جائیں، مقتدی حضرات کوبھی امام کے ساتھ رکعت کااعادہ کرناہوگا ۔ [واﷲ اعلم بالصواب] سوال: اگرقرآن مجید سننا فرض ہے توامام کے پیچھے سورۂ فاتحہ کیوں پڑھی جاتی ہے، نیز یہ بتائیں کہ اگرصبح کی جماعت کھڑی ہوتوکیا صبح کی سنتیں ایک طرف کھڑے ہوکر پڑھی جاسکتی ہیں جہاں امام کی قراء ت نہ سنی جاتی ہو؟ جواب: جس ذات اقدس نے قرآن پاک خاموشی سے سننا فرض قرار دیا ہے، اسی ذات باری تعالیٰ نے اپنے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے یہ حکم دیا ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے۔ [صحیح بخاری، الاذان: ۷۵۶] دوران جماعت جب امام بآواز بلند قراء ت کررہا ہو تب بھی یہی حکم ہے، جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جب میں اونچی آواز سے قراء ت کروں تو(میرے پیچھے) سورۂ فاتحہ کے علاوہ اورکچھ نہ پڑھا کرو۔‘‘ [دارقطنی، ص:۳۱۹،ج ۱] جوحضرات امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے سے منع کرتے ہیں آخروہ بھی امام کی قراء ت کے دوران کچھ پڑھنے کی گنجائش نکال لیتے ہیں جیسا کہ بوقت قراء ت جماعت میں شامل ہونے والے کے لئے تکبیر تحریمہ اور دعا استفتاح، یعنی ’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ‘‘ پڑھنے کاجواز ان کے ہاں بھی مسلّم ہے۔ اس بنا پر امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنا اس ’’انصاف‘‘کے خلاف نہیں ہے جس کا اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے اورنہ ہی حدیث میں اور قرآن پاک میں کوئی تضاد ہے، لہٰذا ہمیں قرآن کاسہارا لے کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا ایمان کے منافی ہے ۔باقی رہا مسئلہ کہ جب صبح کی نماز کھڑی ہوتوایک طرف