کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 119
اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کسی کواپنی نماز میں شک پڑجائے اوراسے پتہ نہ چلے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی یادو تووہ اپنی نماز کوایک رکعت ہی قرار دے اور اگراسے علم نہ ہو کہ اس نے دو رکعت پڑھی ہیں یا تین تووہ اپنی نماز کو دو رکعت ہی بنا لے اور اگر اسے پتہ نہ چلے کہ اس نے تین پڑھی ہیں یا چار تو وہ تین ہی شمار کرے جب وہ نماز سے فراغت کے قریب ہو تو سلام پھیرنے سے قبل بیٹھے بیٹھے ہی سہو کے دو سجدے کرے۔‘‘ [مسندامام احمد،ص:۱۹۰،ج ۱] دوران نماز شک پڑنے کی صور ت میں دیارعرب کے نامور عالم دین شیخ محمد صالح عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دومعاملات میں تردد کوشک کہتے ہیں۔ تین حالات میں شک کوکوئی حیثیت نہ دی جائے۔ ٭ اگردوران نماز محض وہم پیدا ہو جس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی جیسا کہ وسوسہ وغیرہ ہوتا ہے۔ ٭ جب نمازی کو بکثرت وہم میں پڑجانے کی بیماری ہوکہ جب بھی نماز کے لئے کھڑا ہو تو وہ وہم کاشکار ہوجائے۔ ٭ نماز سے فراغت کے بعد شک پڑجائے تواس کی طرف کوئی توجہ نہ دی جائے ۔ ان تین حالات کے علاوہ اگردوران نماز شک پڑجائے تووہ قابل اعتبار ہوگا اوراس کی دوحالتیں ممکن ہیں: 1۔ نمازی کارجحان ایک طرف ہے ،اس صورت میں اپنے رجحان کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنی نماز کوپورا کرے اورسلام پھیر دے، پھر سہو کے دوسجدے کرے اورسلام پھیر دے، مثلاً: ایک نماز ی کونماز ظہر پڑھتے ہوئے شک پڑا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری، لیکن رجحان تیسری رکعت کی طرف ہے تواسے تیسری قرار دے کراپنی نماز پوری کرے، یعنی ایک رکعت مزید پڑھے اور سلام پھیردے۔ اس کے بعد سہو کے دوسجدے کرے اورسلام پھیردے، جیسا کہ صحیح بخاری حدیث نمبر۴۰۱ میں ہے۔ 2۔ اگرنمازی کارجحان کسی جانب نہیں ہے تو وہ شک کونظر انداز کرکے یقین پربنیاد رکھے اور یقین سے مراداس کی کم رکعات ہیں، پھر نماز مکمل کرکے سلام سے قبل سہو کے دوسجدے ادا کرے اورسلام پھیر دے، مثلاً: ایک نمازی کونمازعصر پڑھتے ہوئے شک گزرا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری اور اس کا رجحان بھی کسی طرف نہیں ہے توکم رکعات پربنیاد رکھے جویقینی ہیں، یعنی اسے دوسری رکعت قرار دے کرپہلا تشہد پڑھے ،اس کے بعد مزید دو رکعت پڑھے، پھرسلام سے قبل سہو کے دوسجدے کرے اورسلام پھیردے۔ جیسا کہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر :۵۷۱میں ہے،سجود السہو،ص ۸،۷)اس بنا پر نماز میں شک پڑنے کی صورت درج بالاتفصیل کے مطابق عمل کیا جائے ۔ سوال:۔ ہمارے علاقہ (چکوال)میں کوئی اہل حدیث عالم نہیں ہے۔ حنفی علما سے مختلف مسائل کے متعلق گفتگوہوتی رہتی ہے ہمیں بآواز بلندآمین کہنے کے دلائل درکار ہیں، پھر اس مسئلہ پرچند ایک اعتراضات ہیں ان کا بھی جواب دیں حوالہ جات کی وضاحت ضرور کریں؟ جواب: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگی تواس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ [صحیح بخاری ،الاذان : ۷۸۰]