کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 113
جائے۔ [ابودادود، الصلوٰۃ: ۵۳۴] اگرچہ امام ابوداؤد نے ان روایات کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، تاہم یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ صبح کی اذان ایک ہوتی تھی اورحضرت بلال رضی اللہ عنہ کہتے تھے جب حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے اذان کہنے کے متعلق اپنے شوق کااظہار کیا توصبح کی دواذانیں دینے کااہتمام کردیا گیا۔ پہلی اذان حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہتے جبکہ دوسری اذان حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے ذمے لگادی گئی، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ رات کواذا ن دیتے تھے، اس لئے تم سحری کھاؤ اورپیو،تاآنکہ ابن ام مکتوم اذان دے۔ [صحیح بخاری، الاذان: ۲۶۳] ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینے تھے وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے تاآنکہ انہیں کہاجاتا کہ صبح ہوگئی اب اذان کہہ دی جائے۔ [صحیح بخاری، الاذان: ۶۱۷] اس میں رمضان یاغیررمضان کی تخصیص نہیں ہے، لیکن یہ اذان اولیٰ نماز فجر کے وقت کااعلان اور سامعین کوحضور جماعت کی دعوت دینے کے لئے نہیں ہے اسے تہجد کی اذان کہنے کی بجائے سحری کی اذان کہنازیادہ مناسب ہے، کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اذان کی غرض وغایت خودفرمائی ہے کہ تہجد پڑھنے والاگھر لوٹ آئے اوراپنے گھر سونے والابیدار ہو جائے۔ [صحیح بخاری، الاذان: ۶۲۱] واضح رہے کہ ہمارے ہاں یہ اذان فجر کی اذان سے کافی وقت پہلے کہہ دی جاتی ہے کیونکہ یہ اذان سحری کھانے اورنماز فجر کی تیاری کے لئے ان دونوں کاموں کے لئے چالیس، پینتالیس منٹ کافی ہیں، اس لئے گھنٹوں پہلے یہ اذان دینا درست نہیں ہے، نیز مذکورہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ اذان رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے کیونکہ سحری کاتعلق صرف رمضان سے ہی نہیں بلکہ دوسرے مہینوں میں بھی روزے رکھے جاسکتے ہیں۔ تفصیل کے لئے کتاب مرعاۃ المفاتیح (ص:۱۵۵ج۲ )کودیکھا جاسکتا ہے ۔ [واﷲ اعلم ] سوال: غیراﷲ کے لئے سجدہ توتسبیحات کے بغیر ہی پورا ہوجاتا ہے کیا دوران نماز سجدہ میں اگر تسبیحات نہ کی جائیں توسجدہ مکمل ہوگا یانہیں ؟اگرتسبیحات کے بغیر سجدہ نامکمل ہے توکیا اس رکعت کودوبارہ پڑھنا ہوگا ؟وضاحت کریں ۔ جواب: سجدہ کی دواقسام ہیں ایک سجدہ تعظیمی اوردوسرا سجدہ عبادت ۔ سجدہ عبادت صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے ہے جوکسی وقت بھی اس کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے جائز نہیں ہوااور سجدہ تعظیمی غیر اﷲ کے لئے پہلے کیاجاتا تھا، جیسا کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے لئے کیا یابرادران یوسف نے حضرت یوسف علیہ السلام کوکیا ۔اس امت کے لئے سجدہ تعظیمی کوحرام قرار دیا گیا ہے۔ حدیث میں اس کی ممانعت ہے، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جب علاقہ شام سے واپس آئے توانہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کوسجدہ تعظیمی کیا آپ نے فرمایا: ’’اے معاذ! یہ کیا ہے ؟‘‘انہوں نے کہاکہ علاقہ شام کے لوگ اپنے مذہبی رہنماؤں کے سامنے اس قسم کاسجدہ بجا لاتے ہیں، اس لئے میں نے پسند کیاکہ ہم آپ کوسجدہ کریں۔ توآپ نے فرمایا: ’’ایسا مت کرو، اگر اﷲ کے علاوہ کسی کوسجدہ کرناجائز ہوتا تو میں بیوی کوحکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کوسجدہ کرے ۔‘‘ [ابن ماجہ، النکاح :۱۸۵۳] سجدہ تعظیمی زمین پرسررکھ دینے سے پورا ہوجاتا ہے اس میں تسبیحات کہنے کی ضرور ت نہیں ہے جبکہ اﷲ کے حضور جسے سجدہ عبادت کیاجاتا ہے اس کے لئے اپنی بے بسی اوراﷲ کی کبریائی کااعتراف کرناہوتا ہے ،اس لئے اس میں تسبیحات کہی جاتی ہیں