کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 107
اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم دوران تشہد اپنے دائیں ہاتھ کی تمام انگلیاں بند کرلیتے ،پھر انگوٹھے کے ساتھ متصل انگلی سے اشارہ کرتے ۔ [صحیح مسلم ، المساجد :۵۸۰] ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کودرمیانی انگلی پر رکھ لیتے ۔ [صحیح مسلم ،المساجد :۵۷۹] ٭ پہلی دوانگلیوں کوبند کرلیاجائے، پھر درمیانی انگلی اورانگوٹھے سے حلقہ بناکر انگشت شہادت سے اشارہ کیاجائے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کوبند فرمایا، پھر درمیانی انگلی اورانگوٹھے کے ساتھ حلقہ بنایا اور انگشت شہادت سے اشارہ فرمایا۔‘‘ [ابوداؤ د ،الصلوٰۃ ۷۲۶] ان تینوں صورتوں کوگا ہے بگاہے استعمال کرتے رہنا چاہیے، اب ہم اس کافلسفہ بیان کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں مولانا محمد صادق سیالکوٹی مرحوم کے الفاظ مستعار لیتے ہیں ،مولانا فرماتے ہیں کہ ’’جب انگلی کوکھڑا کیاتو اس نے توحید کی گواہی دی کہ اﷲ ایک ہے، پھرجب انگلی کوباربار ہلاناشروع کیا تو اس نے باربار ایک، ایک، ایک ہونے کااعلان کیا، مثلاً: دوران تشہد اگرانگلی کوسات یا آٹھ بار ہلایا تواتنی ہی مرتبہ انگلی نے توحید کااعلان کیا گویا انگلی کھڑی ہوئی اوربول بول کرایک اﷲ،ایک اﷲ کہتی رہی اورنمازی کے کیف کایہ عالم ہوکہ نظرانگلی کے رفع اورحرکت پررکھے ،دماغ وحدانیت کو آبشار دل پرگرائے اورقلب عطشاں پرآب حیات پیا جائے۔‘‘ (صلوٰۃ الرسول) حاصل کلام یہ ہے کہ انگشت شہادت کودوران تشہد حرکت دینا چاہیے اوراشارہ اورحرکت سلام پھیرنے تک برقرار رہے ،حرکت نہ دینے کے متعلق جوروایات ہیں شاذ اورناقابل حجت ہیں ،نیز نمازی کی نظر دوران حرکت انگلی اوراس کے اشارہ پرمرکوز رہے اور اس سے تجاوز نہ کرے، اس کافائدہ یہ ہے کہ نماز ی داخلی انتشار اور خارجی خیالات سے محفوظ رہتا ہے ۔ [واﷲ اعلم بالصواب] سوال: جمعہ کی پہلی اذان کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بعض لوگ اسے سنت کہتے ہیں ،کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟ جواب: وہ اذان جس کاذکراﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے جمعہ کے دن اس وقت ہوتی تھی، جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لئے منبر پربیٹھ جاتے تھے ،رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرصدیق اورعمر رضی اللہ عنہما کے دورخلافت میں یہی معمول رہا ، جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں مدینہ کی آبادی میں اضافہ ہوگیا توآپ نے لوگوں کی سہولت کے لئے مزید ایک اذان کااضافہ کردیا جوبازار میں ’’زوراء‘‘ نامی مقام پر دی جاتی تھی۔جیسا کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب لوگ زیادہ ہوگئے توآپ نے مقام زوراء پرتیسری اذان کااضافہ فرمایا۔ [صحیح بخاری، الجمعہ : ۹۱۲] شرعی اعتبار سے نماز کے لئے تکبیرکوبھی اذان کہاجاتا ہے ،اس لئے عثمانی اذان ،اضافہ کے اعتبار سے تیسری اورترتیب کے لحاظ سے پہلی ہے بعض روایات میں اس عثمانی اذان کواذان ثانی سے بھی تعبیر کیاگیاہے۔ [صحیح بخاری، ۹۱۵]