کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 102
وضاحت: اس حدیث میں صحابی کانہیں بلکہ ایک تابعی کاعمل پیش کیا گیا ہے کیونکہ حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ تابعی ہیں۔ صحیح احادیث کے مقابلہ میں ایک تابعی کے عمل کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،ہاں اس سے پہلے حدیث میں حضرت عبداﷲبن عمر رضی اللہ عنہما کاعمل بیان کیا گیا ہے کہ وہ سفر میں بھی سترہ کااہتمام کرتے تھے ۔ [مؤطاامام مالک] حضرت قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دوستونوں کے درمیان نماز پڑھ رہاتھا کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گدی سے پکڑ کرسترہ کے قریب کردیا اورفرمایا کہ اس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھ ۔ [صحیح بخاری ،تعلیقاًمع الفتح : ۱/۵۷۷] مصنف ابن ابی شیبہ میں اس روایت کوموصولاًبیان کیاگیا ہے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ :۳/۳۷۰] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی نماز پڑھے توسترے کی طرف رخ کرکے پڑھے اوراس کے قریب کھڑا ہو، تا کہ شیطان اس کے آگے سے نہ گزر سکے ۔ [مصنف ابن ابی شیبہ :۱/۲۷۹] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سترے کااس قدر اہتمام کرتے کہ اگر مسجد میں کوئی ستون نہ ملتا توحضرت نافع رحمہ اللہ سے کہتے کہ تم اپنی پیٹھ میری طرف کرکے بیٹھ جاؤ تاکہ میں تیری طرف رخ کرکے نمازپڑھوں۔ [مصنف ابن ابی شیبہ :۱/۲۷۹] حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نمازی کی زیادتی اوربے انصافی یہ ہے کہ وہ ستر ہ کے بغیرنماز پڑھے ۔ [بیہقی :۲/۲۸۵] حضرت سلمہ بن الاکوع صحر ا میں کسی پتھر کوسامنے گاڑ لیتے، پھراس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ :۱/۲۷۸] ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تونماز کے لئے سترہ کاازحد اہتمام کرتے ۔ ٭ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحرا میں بایں حالت نماز اداکی کہ آپ کے آگے کوئی چیز نہ تھی۔ [مسند امام احمد :۱/۴۴۴] وضاحت: اس روایت کوسید سابق رحمہ اللہ نے سترہ کے استحباب کے پیش نظر اپنی کتاب فقہ السنہ میں بیان فرمایاہے لیکن یہ روایت ناقابل استدلال ہے ،کیونکہ اس میں ایک راوی حجاج بن ارطاۃ ہے جسے محدثین نے ضعیف قرار دیاہے۔ [مجمع الزوائد : ۲/۶۶] اس کے علاوہ یہ مدلس بھی ہے اوراس کی مذکورہ روایت ’’عن ‘‘کے صیغہ سے بیان کی ہے ۔ [تمام المنۃ:۳۰۵] علامہ البانی رحمہ اللہ نے (الاحادیث الضعیفہ رقم :۵۸۰۴)اورعلامہ عبید اﷲ مبارک پوری رحمہ اللہ نے اس روایت پرسیر حاصل بحث کی ہے۔ [مرعا ۃالمفاتیح :۲/۵۰۴] علامہ بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ مذکورہ روایت کی تائید حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے بھی ہوتی ہے لیکن تائید میں پیش کی جانے والی روایت کے متعلق امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ منقطع ہے کیونکہ عباس بن عبیداﷲ نے اپنے چچا حضرت فضل بن عباس کونہیں پایا ،اس کے علاوہ ماہر فن ابن قطان فرماتے ہیں کہ عباس بن عبید اﷲ مجہول ہے ،جس کے حالات کاکوئی اتاپتا نہیں ہے۔ [تمام المنۃ :۳۰۵]