کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 100
کے لئے ہے، آپ ان کی وضاحت فرمائیں؟ جواب: حضر ت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے والد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہمراہ شہرسے باہر ہماری رہائش گاہ میں تشریف لائے ،وہاں صحرا میں آپ نے بایں حالت نماز ادا کی کہ آپ کے آگے سترہ نہیں تھا۔ [ابوداؤد ،الصلوٰۃ : ۷۱۸] وضاحت: ہم نے اپنے موقف کے لئے جواحادیث پیش کی تھیں وہ اپنے مفہوم میں صریح تھیں ،اس کے برعکس یہ جواحادیث پیش کی جاتی ہیں وہ صحیح نہیں، اگرصحیح ہیں تواپنے مفہوم میں صریح نہیں ہیں۔ پیش کردہ حدیث کے متعلق علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کا تبصرہ ہے کہ یہ باطل ہے ۔ اس وجہ سے انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ عباس بن عبید اﷲ بن عباس ہاشمی جواپنے چچا حضر ت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں ۔انہوں نے اپنے چچا کونہیں پایا ،اس انقطاع کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف اور ناقابل استد لال ہے۔[محلٰی ابن حزم : ۴/۱۳] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس راوی کو’’مقبول ‘‘لکھا ہے۔ [تہذیب التہذیب :۵/۱۲۳] مقبول راوی کی روایات اس وقت قبول ہوتی ہیں جب اس کی متابعت ہو،لیکن مذکورہ حدیث کی متابعت کسی صحیح یاحسن حدیث سے نہیں ہوتی، اگر ایک ضعیف حدیث کے مختلف طرق ہوں تو بعض اوقات اسے حسن لغیرہ کادرجہ حاصل ہوجاتا ہے ،لیکن متعدد ضعیف روایا ت کااجتماع انفرادی کمزوری کی تلافی نہیں کرسکتا ۔بہرحال یہ روایت ناقابل استدلال ہے، لہٰذا سترہ کاوجوب اپنی جگہ برقرار رہے گا،نیز پیش کردہ حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں کہ گدھی اورکتیا آپ کے آگے کھیل رہی تھیں ،آپ نے ان کی کوئی پروا نہیں کی۔ حدیث کایہ مضمون ان صحیح اورصریح احادیث کے خلاف ہے ،جن میں صراحت ہے کہ ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے اورایک بکری دوڑتی ہوئی آئی، وہ آپ کے آگے سے گزرناچاہتی تھی ۔آپ نے اپنا بطن مبارک دیوار کے ساتھ لگادیا حتی کہ اس بکری کوآپ کے پیچھے سے گزرناپڑا ۔ [صحیح ابن خزیمہ :۸۲۷] یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ گدھی اورکتیا آپ کے سامنے گھومتی رہیں اورآپ اس کی پروا نہ کریں، جبکہ آپ ہی نے فرمایا کہ ’’کتا، گدھا اورعورت ،ان کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز کاخشوع متاثر ہوتا ہے۔‘‘ [صحیح مسلم، الصلوٰۃ :۲۶۶] محدثین کرام رحمہ اللہ کاایک اصول یہ بھی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل میں تعارض ہوتوقول کوترجیح دی جاتی ہے اورفعل کوخصوصیت پرمحمول کیاجاتا ہے ۔چنانچہ پیش کردہ حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کاایک فعل بیان ہوا ہے ،لیکن آپ کے متعدد اقوال اس کے معارض ہیں ،لہٰذا ان اقوال کوترجیح دی جائے گی ،مختصر یہ ہے کہ مذکورہ حدیث اس قابل ہی نہیں کہ اسے صحیح اورصریح احادیث کے مقابلہ میں پیش کیاجائے ،اگرکوئی ان کے معارضہ پراصرار کرتا ہے تو اس میں آپ کا فعل بیان ہوا ہے ،جوآپ کے فرامین کے مقابلہ میں مرجوح ہے۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسند البزار کے حوالہ سے حدیث نقل کی ہے :’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھ رہے تھے اورآپ کے سامنے کوئی چیز بطورسترہ نہ تھی ۔ ‘‘ [فتح الباری :۱/۲۶۶] وضاحت: علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے حدیث کوبایں الفاظ نقل فرمایا ہے کہ آپ کے سامنے کوئی ایسی چیز بطورسترہ نہ تھی جوہمارے اورآپ کے درمیان حائل ہو۔ [نیل الاوطار:۳/۱۲]