کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 57
اسی طر ح حضرت یو نس بن عبید رضی اللہ عنہ[1] کی خدمت میں ان کے د وست نے خط لکھا کہ اپنے احو ال سے مطلع کیجئے،اس کے جو اب میں انہوں نے لکھا کہ آپ مجھ سے میرے حا ل و احو ال کے با رے میں پوچھتے ہیں،میں تمہیں بتلا تا ہوں کہ گر میوں کے بڑے دنوں میں میر ا نفس رو زہ رکھنے کی مشقت تو بر داشت کرلیتا ہے،مگر لا یعنی کلا م کو چھو ڑنا پسند نہیں کرتا۔ ( العزلۃ) انسان کوچا ہیے کہ ہر کا م کر نے اور بات کر نے سے پہلے یہ حقیقت مستحضر کر لے کہ اللہ تعالیٰ میر ی بات کو سنتے اور میر ی ہر حرکت و ادا کو دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فر مان ہے :
[1] ’’العزلۃ‘‘ میں یو نس بن عبید اللہ ہے،مگر صحیح یو نس بن عبید معلو م ہو تا ہے،حضرت حسن بصری رحمہ اللہ،ابن سیرین رحمہ اللہ اور ثا بت بنانی رحمہ اللہ ایسے تا بعین کے تلمیذ تھے،اور بڑے عا بد و ز اہد اور محد ث گز رے ہیں،سلمۃ بن علقمہ رحمہ اللہ فرما تے ہیں :کہ میں یو نس رحمہ اللہ کی خد مت میں رہا ہو ں مگر کبھی ان کے ایک کلمہ پر بھی میں مو اخذہ نہ کرسکا،سوق بز ازین میں ایک شخص نے آ کر پو چھا کہ آ پ کے پا س ۴۰۰ درہم کی قیمتی نقش و نگا ر کی ریشمی چا در ہے،تو اما م یو نس رحمہ اللہ نے فر ما یا: میرے پا س دو سو درہم کی ایسی چا در ہے،یہ کہہ کر و ہ نما ز کے لیے چلے گئے،ان کے پیچھے ان کے بر ادر زادہی نے وہی چا در چا ر سو درہم میں فر وخت کر دی،حضرت یو نس رحمہ اللہ واپس آئے،جب انہیں حقیقت کا علم ہو ا تو فر ما یا: اے اللہ کے بند ے ! یہ چا در دو سو درہم کی ہے چاہو تو دو سودرہم واپس لے لو،ورنہ تمہا ری مرضی ہے،اس نے پو چھا آپ کا کیا نا م ہے ؟ فر ما یا: یو نس بن عبید رحمہ اللہ،اس نے کہا: اللہ کی قسم جب ہما ری دشمن سے مڈھ بھیڑ ہو تی ہے تو ہم کہتے ہیں : ’’ اللھم رب یو نس فرج عنا ‘‘ اے یو نس کے رب! ہماری مشکل آسان فر ما دے،تو اللہ تعا لیٰ ہما ری مشکل دو ر کر دیتے تھے۔ (التھذیب :ص۴۴۳،ج۱۱) اما م یو نس رحمہ اللہ ریشم کا کا م کر تے تھے۔ایک دفعہ ریشم مہنگا ہو گیا آ پ نے ایک آدمی سے ۳۰ ہز ار کا ریشمی سامان خر یدا،بعد میں اسے بلا کر فر ما یا: تمہیں معلو م ہے کہ فلا ں فلا ں ملک میں ریشم کے نرخ بڑھ گئے ہیں،اگر تمہیں معلو م ہو تا تو تم یہ سامان کبھی فروخت نہ کرتے،پھر اپنا تیس ہزار درہم لے کر اس کا سامان وا پس کر دیا۔ایک دفعہ ایک عورت ان کے ہا تھ ریشم کا کو ٹ فر وخت کر نے کے لیے لا ئی،آپ نے پوچھا اس کی قیمت کیا ہے ؟ و ہ بو لی،پا نچ سو درہم،آ پ نے فر ما یا: نہیں اس کی قیمت اس سے زیادہ ہے،عورت بو لی،پھر چھ سو درہم دیجئے۔فر ما یا: اس کی قیمت اس سے بھی زیا دہ ہے،آپ اس کی قیمت اسی طر ح بتلا تے رہے،حتی کہ اس کا ایک ہزار درہم ادا کیا۔(التذکرہ : ج۱ص۱۴۵،۱۴۶،السیر: ج ۶ص۲۸۹،۲۹۳)