کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 55
گئے؟ انھوں نے عرض کیا:وہ بیمارپڑے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور فرمایا:’’أبشر یا کعب ‘‘ اے کعب رضی اللہ عنہ مبارک ہو۔ان کی والدہ نے یہ کہا:’’ ھنیئا لک الجنۃ یا کعب‘‘ کعب رضی اللہ عنہ تجھے جنت کی بشارت ہو۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا:’’من ھذہ المُتَاَلِیَۃُ عَلَی اﷲ‘‘ یہ اﷲ پر کون قسم چڑھا رہی ہے ؟ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا:جناب یہ میری ماں ہے۔آپ نے فرمایا: ’’ ما یدریک یا ام کعب لعل کعب قال مالا یعنیہ ومنع ما لا یغنیہ (مجمع الزوائد واسنادہ جید ص۳۱۴ ج ۱۰،الصمت لابن ابی الدنیا ص ۸۸ وغیرہ) اے کعب کی ماں ! تمھیں کیا خبر کہ کعب رضی اللہ عنہ نے فضول اور بے مقصد بات کی ہو یا ایسی چیز دینے سے گریز کیا ہو جو اسے غنی نہ بناتی ہو۔یعنی کسی معمولی چیز کے دینے سے انکار کیا ہو۔ غور فرمائیے !آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد کن کے بار ے میں ہے ؟ حضرت کعب رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں۔حتی کہ شہید کے بارے میں بھی جن کے بارے میں آپ کو یقین تھا کہ انھوں نے فرائض و واجبات کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہوگی۔دین کے فرائض کے بارے میں وہاں سستی و کاہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔البتہ ان کے بارے میں لایعنی اور غیر مقصد باتوں سے اجتناب نہ کرنے کا اندیشہ ظاہرکیا۔جس سے اس بات کی وضاحت مقصود تھی کہ جنت کی حق داری کے لیے صرف نماز روزہ ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے اخلاقی قدروں کا اہتمام بھی ضروری ہے۔حتی کہ لایعنی اور فضول باتوں سے اجتناب بھی ضروری ہے کہ مومن کی زندگی ایک مقصد کی زندگی ہے۔لایعنی اور بے مقصد کاموں کے لیے نہیں۔بلاشبہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت بڑی وسیع ہے لیکن اگر اﷲ تعالیٰ لایعنی باتوں کے بارے میں مناقشہ فرمائیں جو بذات خود ایک عذاب ہے تو اﷲ تعالیٰ سے کوئی بھی پوچھنے والا نہیں۔﴿ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ﴾ (الانبیاء:۲۳) کہ اﷲ تعالیٰ جو کرے اس سے کوئی سوال نہیں کر سکتا۔ان بندوں سے سوال کیا جائے گا۔ حضرت لقما ن رحمہ اللہ سے کسی نے کہا کہ کیا آ پ وہی نہیں جو فلاں فلاں پہاڑ پر بکر یاں