کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 35
جو لو گوں کے سینوں میں و سو سے ڈا لتاہے۔
صحیح بخاری( ج۱ص۴۶۴) و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکا ف کئے ہوئے تھے،ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ زیا رت کے لیے رات کو آپ کی خد مت میں حاضر ہوئیں جب وا پس جا نے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھو ڑی دور ان کے سا تھ ہو چلے تاکہ انہیں گھر کے قریب چھو ڑ آ ئیں،اسی اثنا میں دوانصاری صحابی سا منے سے گزرے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچا نا تو تیز ی سے آ گے نکل گئے،آپ نے انہیں آ وا ز دی ٹھہر جا ؤ،پھر فرمایایہ میر ی بیو ی صفیہ رضی اللہ عنہ ہے،انہوں نے آپ کی اس صفا ئی پیش کرنے پر تعجب کیا اور کہا: سبحان اللہ آ پ کے بارے میں بھی کسی قسم کا شبہ ہو سکتا ہے ؟ آ پ نے فرمایا: بیشک شیطا ن انسان کے رگ و ریشہ میں خو ن کی طر ح گردش کرتا ہے اور مجھے خوف تھا کہ کہیں تمہا رے دل میں کوئی شک پید ا نہ کرے۔
حا فظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ وسو سہ کے اصل معنی ہیں آ ہستہ سے کو ئی بات کہنا،جس کا دوسرے حاضر ین کو احساس نہ ہو،اور اصطلا ح میں اس کے معنی شیطا ن کا کسی کے دل میں بر ائی کا خیال ڈا لنا ہے اور اس میں عمو ما ً تکرار کے معنی پا ئے جا تے ہیں اور شیطا ن کے القا ء کو اس لیے و سو سہ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی با ر با ر القا ء کرتا اور وسوسہ ڈا لتا ہے۔وسوسہ اور اس سے متعلقہ تمام مبا حث کے لیے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی تفسیر معوذتین ملا حظہ ہو۔
شیطا نی وسو سہ کا ایک پہلو نما ز میں وسو سہ ڈا لنا ہے،چنا نچہ حضرت ابو ہر یرۃ رضی اللہ عنہ سے مرو ی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نما ز کے لیے اذان ہو تی ہے تو شیطا ن گو ز مارتا ہوا بھاگتا چلا جاتا ہے۔جب اذان ختم ہوتی ہے تو نمازیوں کو ورغلانے کے لیے متو جہ ہوتا ہے،جب نماز کے لیے اقامت ہوتی ہے تو وہ پھر بھاگ جاتا ہے،جب اقامت ختم ہو جاتی ہے تو وہ پھر آ مو جو د ہو تا ہے اور نما زی کے دل میں وسو سے ڈا لنے لگتا ہے بھولی بسری با تیں یا د دلا تا ہے،یہاں تک کہ نما زی نہیں جا نتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ (بخاری: ج۱ص۸۵،مسلم)
حا فظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :کہ انسا ن جب نما ز کے لیے کھڑا ہو تا ہے تو شیطا ن کو