کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 31
پڑھتاہے،تم میں سے جب کو ئی نما ز کے لیے کھڑ ا ہو تا ہے تو اپنے رب سے مناجات کرتا ہے،اسے دیکھنا چا ہیے کہ وہ کس طرح منا جات کرتا ہے۔ اس لیے منا جات کا تقا ضا ہے کہ نما ز پو ری تو جہ سے پڑھی جا ئے اسکا ایک ایک لفظ حروف و معنی کا خیا ل رکھ کر پڑھا جا ئے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں اور میر ا مدعا کیا ہے،نما ز میں تکبیر و تسبیح و دعا کے سا تھ سا تھ قرآن مجید کی تلا وت کی جا تی ہے،قر آ ن مجید کی تلا وت کا بھی ایک تقا ضا ہے کہ اسے تر تیل سے پڑھا جائے چنا نچہ ارشا د با ری تعالیٰ ہے ﴿ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا ﴾ہ قرآن مجید کو تر تیل سے پڑھو۔یعنی آہستہ آ ہستہ الفاظ زبا ن سے ادا کرو تیز تیز نہ پڑھو۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ فر ما تی ہیں : کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر آ یت کو الگ طور پر پڑھتے،اور ہر آ یت پر ٹھہرتے اور وقف کر تے تھے مثلاً﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَا لَمِیْنَ﴾پڑھ کر رک جا تے پھر ﴿اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ﴾ پڑھتے تو اس پر وقف فرماتے،پھر ﴿ مَا لِکِ یَوْمِ الدِّیْنَ﴾ پڑھتے توٹھہر جاتے۔ (ابوداود،ترمذی،مشکوٰۃ:رقم۲۲۰۵ ) الفا ظ کی اد ائیگی میں لغت عرب کے مطا بق مخا رج کا اہتما م کر نا چا ہیے اور پڑھتے ہوئے یہ بات مستحضر رہنی چا ہیے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں،قر آ ن مجید خو اہ آ ہستہ ہی پڑھا جا ئے زبان اور ہو نٹوں کی حر کت کے بغیر صحیح طور پر پڑھا ہی نہیں جا سکتا۔بعض حضرات کو دیکھا گیا ہے کہ وہ نما ز کے لیے کھڑے ہو تے ہیں تو ایسا محسو س ہو تا ہے کہ چپ چا پ کھڑے ہیں یا دل ہی دل میں پڑھ رہے ہیں،حا لا نکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر وعصر میں پڑھتے تو آ پ کی داڑھی مبا رک ہلتی تھی اور صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ آ پ پڑھ رہے ہیں۔(بخاری:ج۱ص۱۰۵ ) حضرات فقہا ء کرا م میں اختلا ف ہے کہ کم از کم آہستہ قر ا ءت کیسے ہو تی ہے ؟ بعض نے کہا کہ الفاظ کو زبان سے صحیح اداکرناآ ہستہ پڑھنا ہے اور بعض نے کہا ہے کم از کم آ ہستہ قر اءت یہ ہے کہ پڑھنے والے کے الفا ظ اس کے کا ن سنیں صر ف تصحیح حرو ف کا فی نہیں،اکثر فقہائے حنفیہ،حنا بلہ اور شا فعیہ کا یہی قو ل ہے۔ لہٰذا جب آ ہستہ پڑھنے کی صحیح تر صو رت یہ ہے کہ پڑھنے و الے کے کا ن سنیں تو اس