کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 30
ترتیل قر آ ن اور تصحیح حروف نما ز ا پنے رب سے مناجات کرنے اور اپنی حاجات کو اس کے حضور پیش کر نے کاذریعہ ہے چنا نچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فر ما ن ہے : کہ نما زی ’’ینا جی ربہ‘‘ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔مناجات کے معنی ہیں : سر گو شی کر نا۔جس میں اپنی عا جز ی و بے کسی کے اظہا ر کے سا تھ ساتھ کچھ مانگنے اور طلب کرنے کا پہلو پا یا جاتا ہے۔گو یا نماز ی اپنے رب کی ثنا خو انی کرتا ہے اور اس کی جناب سے کچھ طلب کرتا ہے۔مناجات کے یہ صو رت سورہء فا تحہ میں ’’عیاں را چہ بیاں ‘‘کا مصداق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نما ز ی ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَا لَمِیْنَ ﴾کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندے نے میری حمد بیا ن کی،جب وہ ﴿ اَلرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ﴾ کہتا ہے تو اللہ تبا رک و تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندے نے میری تعریف کی،جب وہ کہتا ہے: ﴿مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : کہ میر ے بند ے نے میر ی بز رگی بیان کی،جب وہ کہتا ہے ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ میرے اور میرے بند ے کے در میا ن ہے اور میں اپنے بند ے کودوں گا جو وہ طلب کر ے گا۔چنانچہ طلب مدعا کے لیے جب بندہ یہ التجا کرتا ہے کہ: ﴿ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَا طَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : یہ میرے بند ے کے لیے ہے۔اس کے لیے وہی کچھ ہے جو وہ سو ال کرتاہے۔(مسلم : ج۱ص۱۷۰ ) گو یا نما زیک طرفہ معا ملہ نہیں بلکہ اس کا ایک سرا بندہ و غلا م سے متعلق ہے تو د وسرا مالک و آقا سے۔اسی حو الے سے آ پ نے یہ بھی ارشاد فر مایا۔ یا فلان! ألا تتقی اللّہ،ألا تنظر کیف تصلی؟،اِن أحدکم اِذا قام یصلی اِنمایقوم یناجی ربہ فلینظر کیف یناجیہ۔ ( ابن خزیمۃ حا کم،صحیح التر غیب :ص۳۵۴ج۱) اے فلاں ! تو اللہ تعالیٰ سے کیوں نہیں ڈرتا،کیا تو نہیں خیا ل کرتا کہ نما ز کس طرح