کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 29
لا یزال اللّٰہ مقبلا علی العبد فی صلا تہ ما لم یلتفت فاذا صرف وجھہ انصرف عنہ۔(ابو داود،ابن خزیمۃ،ابن حبان،صحیح التر غیب :ج۱ص۳۲۰)
جب تک نما زی ادھر ادھر نہیں جھا نکتا اللہ تعالیٰ اس کی طرف متو جہ ر ہتے ہیں جب نمازی التفات کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی تو جہ اس سے پھیر لیتے ہیں۔
اس لیے اللہ تعالیٰ کے حضو ر حاضر ہو کر ادھر ادھر جھا نکنا جہاں سوء ادب ہے وہاں نما ز میں خشو ع کے بھی منا فی ہے خو دآ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب آپ نماز پڑھتے ’’طأ طأ رأسہ‘‘اپناسر مبا رک جھکا لیتے (حاکم: ج۲ص۳۹۳،بیھقی: ج ص ۲۔ص۲۸۳) اور اپنی نگاہ زمین کی طرف مرتکز کر دیتے۔
جب آ پ بیت اللہ میں داخل ہو ئے ادب و احترام کایہ عا لم تھا کہ ام المو منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیا ن فرما تی ہیں :
ما خلف بصرہ موضع سجودہ حتّٰی خرج منہ۔
(حاکم :ج۱ص۴۷۹،بیہقی:ج۵ص۱۵۸)
آ پ کی نگاہ مبارک سجدہ کی جگہ سے نہیں پھر ی تا آ نکہ آ پ با ہر نکل آ ئے۔
تشہد کی حا لت میں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا طر یقہ یہ تھا کہ د ا ئیں ہا تھ کی انگشت شہا دت سے اشارہ توحید کرتے اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ اشا رہ سے تجا وز نہ کر تی۔چنا نچہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
لا یجاوز بصرہ اشارتہ۔( ابو داو د:ج۱ص۳۷۶رقم۹۸۷،نسائی و غیر ہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ اشا رہ سے تجا وز نہیں کرتی تھی۔
بلکہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے التفات یعنی گو شہ چشم سے جھا نکنے کو’’ اختلا س شیطان ‘‘اور ’’التفات ثعلب‘‘ ( کہ یہ شیطا ن کا جھپٹنا اور لومڑی کا جھا نکنا ہے ) سے تشبیہ دیکر اس سے نفرت کا اظہا ر فرمایا۔( احمد،ابویعلی )
اس لیے نماز کی حا لت میں ادھرادھر جھا نکنا یاسا منے کا نظا رہ کرناخشوع کے منا فی ہے جس سے بہر نو ع اجتنا ب کی کو شش کر نی چا ہیے۔