کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 24
رکعتین یقبل علیھما بقلبہ ووجھہ الا قد أو جب‘‘کہ پھر وہ کھڑا ہو کر دو رکعتیں پڑھتا ہے اور ان دو نوں میں اپنے دل و چہرے سے متوجہ رہتا ہے تو اس پر جنت و اجب ہو جا تی ہے۔(صحیح التر غیب: ج۱ص۲۸۳)
دل سے متو جہ ہو نے سے مراد ظا ہر ہے کہ دل کا خشو ع ہے اور چہر ے سے متو جہ ہو نے سے مراد ظا ہر ی اعضا ء ہیں،کیونکہ خشو ع کا تعلق اعضا ء و جوارح اور دل کا دو نوں سے ہے اور یہ تبھی ہو گا جب اسے یہ بھی معلو م ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔یہ اور اس موضو ع کی دیگر روایات سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اصل نما ز جس سے اللہ کی رضا اور بخشش و مغفرت حاصل ہوتی ہے وہ ہے جو خشو ع و خضو ع سے ادا کی جائے،جس قدر اس میں کمی ہو گی اسی قدر ثو اب کم ملے گا۔
خشو ع کا ختم ہونا
جس طرح بہت سے امو ر خیر زما نہ خیر القرون کے بعد ختم ہو تے چلے گئے اسی طر ح نمازمیں خشو ع و خضوع بھی جاتا رہا۔بلکہ حضرت ابو الد ر داء رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ رسو ل اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اول شیء یرفع من ھذہ الامۃ الخشوع حتی لا تری فیھا خاشعًا ( طبر انی باسناد حسن،صحیح التر غیب: ص ۳۵۴ ج۱)
اس امت میں سب سے پہلے خشو ع اٹھا لیاجا ئے گا یہاں تک کہ اس میں کو ئی خشو ع کر نے و الانہیں ملے گا۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیا ن فرماتے ہیں سب سے پہلے دین سے جانے والا عمل خشو ع ہو گا اور سب سے آ خر میں نما ز بھی پڑھنے والانہیں ہو گا، کتنے نمازی ہیں جن میں کو ئی بھلائی نہیں،مستقبل قر یب میں تم مسجد میں جاؤتو کو ئی خشو ع کرنے و الا نہیں دیکھو گے۔(الضو ء المنیر )
حضرت عبا دہ بن صا مت رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا:
یوشک ان تدخل مسجد الجا مع فلا تری فیہ رجلا خا شعاً۔(الترمذی)
عنقریب تم جامع مسجد میں جایاکر و گے اور وہاں کسی کو خشوع کی حا لت میں نہیں