کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 22
کے سا تھ نقل کی ہے۔(صحیح الترغیب : ج ۱ص۳۵۲)اور حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رب صا ئم لیس لہ من صیا مہ الا الجو ع ورب قائم لیس لہ من قیامہ الا السھر (ابن ماجہ،ابن خزیمۃ۔نسا ئی،صحیح التر غیب: ج۱ص۷۵۲)
کتنے روزہ دا ر ہیں جنہیں سو ائے بھو ک کے کچھ حا صل نہیں ہو تا،اور کتنے شب زندہ دار ہیں جنہیں بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
گو یا قبو لیت کے لیے ظا ہر ی قا لب ہی کی نہیں بلکہ قلب و رو ح کی بھی ضرو رت ہے جو نما ز اس سے خا لی ہو گی اللہ تعالیٰ کے ہاں قبو لیت کا در جہ نہیں پائے گی۔
قبو لیت کے درجا ت
ہر عمل کی قبو لیت کے تین درجے ہیں
(۱)۔قبو لیت سے مراد اس پر اللہ تعالیٰ کی رضا اور عمل کر نے وا لے کی تعر یف کہ فرشتو! دیکھومیر ابندہ یہ عمل کر رہا ہے۔
(۲)۔اس سے مراد اس کا اجر وثو اب ہے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہوکر اپنے انعام و اکرام سے نوازتے ہیں۔
(۳)۔اس سے مراد بس فرض کی ادائیگی ہے کہ وہ حکم بجا لا یا،اس کے ذمہ جو فرض تھا وہ اس نے پو را کر دیا،لیکن اس کے نتیجہ میں اسے کو ئی اجرو ثو اب حاصل نہیں ہو گا۔
(جا مع العلو م و الحکم: ص۸۷)
اس لیے جس قد ر نماز حضور قلب اور خشوع وخضو ع کے مطا بق ہو گی اسی قدر اسے اجر و ثو اب ملے گا جیساکہ حضرت عمار بن یا سر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے و اضح ہوتا ہے۔
یہی نما ز مقصو د ہے
نماز کو وقت پر ادا کر نا اور وسو اس سے بچ کر خشوع و خضو ع اور اطمینا ن و دلجمعی سے نما زپڑھنا ہی اصل نماز ہے اور یہی نمازاللہ تعالیٰ کی رضا اور بخشش کا باعث ہے،چنا نچہ