کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 21
یعنی جب تم میں سے کسی کو نما ز میں او نگھ آجا ئے تو نماز چھو ڑ کر سو جا ئے یہاں تک کہ اس سے نیند دو ر ہو جائے
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’ مشہو ر‘‘ یہ ہے کہ او نگھ اور نیند میں فر ق ہے،جس کے حواس اس طرح ٹھہر گئے کہ کلا م سنے اور معنی نہ سمجھے اس کو اونگھ وا لا کہتے ہیں،اور جو اس پر زیا دہ ہوجائے (کلام بھی نہ سنے ) اسکو سو نے وا لا کہتے ہیں،جو لو گ معنی نہیں جا نتے ان کی حالت بالکل اونگھنے و الے کی سی ہے جب او نگھ کی حالت میں نما ز منع ہے،تو ان کی نمازکیسے درست ہوگی۔(فتا وی اہلحد یث: ص۱۱۹ج۲)
اسی طرح دعا کی قبو لیت کی ایک شرط یہ ہے کہ حاضر دل سے دعا کی جائے،اللہ تعالیٰ غا فل دل کی دعا قبو ل نہیں کر تے جیسا کہ مسند امام احمد: ص۱۷۷ج۲ میں حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:
فان اللّٰہ لا یستجیب لعبد دعاہ عن ظھر قلب غافل
علا مہ منذری رحمہ اللہ اور ھیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن قر ار دیا ہے (صحیح التر غیب : ج ۲ص ۲۸۶) لہٰذا جب غافل دل سے کی ہو ئی دعا قبول نہیں تو غا فل دل سے پڑھی ہوئی نما ز کیو نکر قبول ہو گی ؟
حضرت عما ر بن یا سر رضی اللہ عنہ سے مر و ی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان الر جل لینصرف وما کتب لہ الا عشر صلا تہ تسعھا ثمنھا سبعھا سدسھاخمسھا ربعھا ثلثھا نصفھا
(ابو داود،نسائی،ابن حبا ن،صحیح التر غیب: ج۱ص۳۵۲)
آ د می نماز سے فا رغ ہو تا ہے اور نہیں لکھا جاتا اس کے لیے مگر نما ز سے دسو اں حصہ،نواں حصہ،آٹھو اں حصہ،سا تو اں،چھٹا،پا نچو اں،چو تھا،تیسرا حصہ اوراس کا نصف حصہ۔
گو یا جس قد ر تو جہ اور پو رے اہتما م سے نماز پڑھے گا اسی قدر اسے ثو اب ملے گا۔اما م رحمہ اللہ نسا ئی نے اسی مفہو م کی ایک رو ایت حضرت ابو الیسر کعب بن عمرو السلمی رضی اللہ عنہ سے بھی سند حسن