کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 191
’’اورث‘‘ کہا جاتا ہے،مگر یہاں جنت کی وراثت سے مراد اس میں ہمیشہ رہنے اور اس کی نعمتوں سے متمتع ہونے کی بشارت ہے۔علامہ زمخشری رحمہ اللہ اسی مفہوم کو واضح کرنے کے لئے لکھتے ہیں :
نورث ای نبقی علیہ الجنۃ کما نبقی علی الوارث مال الموروت۔(الکشاف،اضو اء :ج۴ص۲۵۹)
کہ جس طرح ہم وارث کے لئے موروث کا مال باقی رکھیں گے،اسی طر ح ہم ان کے لئے جنت باقی رکھیں گے۔
وہ کبھی بھی اس سے نہ محروم ہوں گے،نہ اس کے انعامات ختم ہونگے،جس طرح فوت ہونے والے کے ثمرہ یعنی مال کا وارث ہوتا ہے،اسی طرح صالحین و متقین کا عمل تو ختم ہوگیا مگر اس کا ثمرہ عامل کو جنت کی صورت میں ملے گا،چنانچہ اس معنوی مناسبت سے اسے وراثت سے تعبیر کیا گیا ہے،یایوں سمجھئے کہ وراثت ملنے کے بعد وارث اس کا مالک ہوتا ہے،جس طرح چاہے اس میں تصرف کرتا ہے،اسی طرح اہل جنت اس معنی میں وارث ہیں کہ وہ اس کے مالک ہیں،جہاں چاہیں آجاسکتے ہیں،جو چاہیں کھائیں،جو وہ چاہیں گے اپنے سامنے پائیں گے۔’’ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْ أَنْفُسُکُمْ‘‘دنیا میں چاہتوں کے ارمان دل کے دل ہی میں رہے مگر وہاں چاہت پر تکمیل میں تاخیر نہیں ہوگی،کہ یہاں سب کچھ انہی کا تو ہے،اور وارث بھی جنت فردوس کے،جو جنت کا اعلیٰ ترین اور سب سے افضل حصہ ہے،کہ پوری جنت میں جو جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں،جنت فردوس ان تمام نعمتوں سے معمور ہوگی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کے سو درجے ہیں،ہر درجہ دوسرے درجہ سے اتنی مسافت پر ہے جتنی زمین و آسمان کے مابین مسافت ہے،اور سب سے اعلیٰ درجہ جنت فردوس کا ہوگا،جب تم اللہ سے سوال کرو تو جنت فردوس کا سوال کرو۔(بخاری: ج۲ص۱۱۰۴)
ایک روایت میں ہے کہ فردوس سے اوپر اللہ ذوالجلال والا کرام کا عرش ہوگا،جنت کی تمام نہروں کامرکز و منبع یہی جنت فردوس ہوگی،اسی جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے،