کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 190
چاہیے تو یہ کہ وہ خوشی خوشی اپنے رب کی پکار پر اٹھیں کہ رب سے مناجات کا وقت آگیا ہے،اور پھر اس کے لئے ہمیشہ تیار رہیں،سرمو اس سے تغافل اختیار نہ کریں کہ فلاح و فوزا نہی کا مقدر ہے۔
﴿ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْوٰرِثُوْنَo الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ ﴾ (المؤمنون:۱۰،۱۱)
بس یہی لوگ وارث ہیں جو فردوس کے وارث ہوں گے،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
گویا ان اوصاف کے حاملین ہی جنت فردوس کے وارث ہیں،جنت کی وراثت و ملکیت کے یہی حقدار ہیں ایک اور مقام پر فرمایا ہے:
﴿ تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ کَانَ تَقِیًّا ﴾ (مریم: ۶۳)
یہ وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے متقی بندوں کو بنائیں گے۔
اس طرح فرمایا گیا ہے :
﴿ وَنُوْدُوْآ أَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ أُوْرِثْتُمُوْھَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾(الاعراف: ۴۳)
انہیں ندا آئے گی ؟ تم اس جنت کے وارث بنائے گئے ہوان اعمال کے بدلہ میں جو تم کرتے رہے۔
اور اہل جنت بھی منزل مقصود پالینے کے بعد کہیں گے:
﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّئُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَائُ ج فَنِعْمَ أَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ﴾(الزمر :۷۴)
اس اللہ کا شکر جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچا کردکھایا،اور ہمیں اس سرزمین کا وارث بنایا،کہ اس جنت میں ہم جہاں چاہیں رہیں،عمل کرنے والوں کے لئے یہ کیسا اچھا اجر ہے۔
علامہ راغب رحمہ اللہ نے تو کہا ہے کہ جو خوشگوار چیز کسی کو بطور عطیہ دی جائے اسے