کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 182
بلکہ معروف حنفی فقیہ علامہ علاؤ الدین ابوبکر بن مسعود کا سانی رحمہ اللہ نے تو لکھا ہے کہ: و منھا أن یکون قربۃ مقصودۃ فلا یصح النذر بعیادۃ المرضٰی و تشییع الجنائز والو ضوء والاغتسال و دخول المسجد ومس المصحف والأ ذان وبناء الرباطات والمساجد وغیر ذلک واِن کانت قرباً لأنّھا لیست بقرب مقصودۃ۔(بدائع: ج۶ص۲۸۶۴) نذر کی شرط میں یہ ہے کہ وہ قربت مقصودہ ہو لہٰذا مریضوں کی بیمارپرسی جنازہ کے لئے جانے،وضو،غسل،مسجد میں داخل ہونے،قرآن مجید کو چھونے،اذان،وقف،مکانات تعمیر کرنے،مساجدبنانے اور اسی نوعیت کے دوسرے کاموں کی نذر ماننا صحیح نہیں،یہ کام اگرچہ اللہ کے قرب کا باعث ہیں مگر یہ قربت مقصودہ نہیں ہیں۔ یعنی اذان نمازکے لئے،مسجد تعمیر کرنا نماز کے لئے،مسجد میں جانانماز پڑھنے،ذکر و اذکار کرنے یا تعلیم حاصل کرنے کے لئے،مسجد،محض دخول مسجد یامس مصحف یا اذان قربت ہے نہ مطلوب و مقصود اور نہ ہی اس کا حکم،غور فرمائیے جب علمائے احناف کے ہاں امرواقعہ یہ ہے تو قبر پر جانے،اس پر اچھاڑ چڑھانے،چراغ جلانے یا چراغ میں تیل ڈالنے،وہاں جانور ذبح کرنے،یا محفل میلاد،یا محفل ماتم قائم کرنے کی نذر و منت کیونکر روا ہوئی؟ علامہ ابن نجیم نے تو صراحۃً لکھا ہے: النذر الذی ینذرہ اکثر العوام علی ما ھو مشاھد کأن یکون لاِنسان غائب أو مریض أو لہ حاجۃ ضروریۃ فیأتی بعض الصلحاء فیجعل علی رأسہ سترہ ویقول: یاسیدی فلان اِن رد غائبی أوعوفی مریضی أوقضیت حاجتی فلک من الذھب کذا أومن الفضۃ کذا أو من الطعام کذا أو من الماء کذا أومن الشمع والزیت کذا فھذا النذر باطل بالاِجماع لوجوہ منھا انہ نذرللمخلوق والنذر للمخلوق لایجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لاتکون لمخلوق ومنھا أن المنذور لہ میت والمیت لایملک ومنھا انہ ظن أن المیت یتصرف فی الأمور دون الّٰلہ وذالک کفر۔۔۔۔۔۔فما یؤخذ