کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 18
فضائل میں۔علا مہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’والصحیح الاو ل ‘‘ پہلا قو ل صحیح ہے۔(تفسیرقرطبی ص۱۰۴ج۱۲)۔عمو ما ً فقہا ء کر ام نے اسے مستحب اور فضائل کے در جہ میں رکھا ہے۔مولانا منا ظر احسن گیلا نی مر حو م نے تو یہ نقل کیا ہے کہ ہمارے استاذاما م علامہ کشمیر ی نوراللہ مرقدہ فرمایا کرتے تھے : کہ نما ز میں خشوع خضو ع مسئلہ ظا ہر ہے کہ قرآ نی مطالبہ ہے لیکن فقہ کی کتابوں میں سا لہا سال سے تلا ش کر رہا ہوں کہ فقہا ء نے اس مسئلہ کا کہیں اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے یا نہیں،فر ما تے ہیں : کہ مدت کے بعد ایک غیر مطبو عہ کتا ب میں صرف ایک فقرہ ملا کہ نما ز کے مستحبات میں یہ بھی ہے۔وا قعہ وہی ہے کہ فقہا ء نے اسلام کے قا لب پر اپنی بحث کا موضوع بنایا۔اسی لئے صرف انہی عناصر کا ذکر اپنی کتاب میں کرتے ہیں جن سے اس اسلامی قا لب کی تعمیر میں مدد ملتی ہے باقی اسلا م کا قلب اور اس کی ر و ح اس کے عنا صر و اجزا ء یہ بالکلیہ جدا گا نہ چیز یں ہیں۔کتا ب و سنت کا جو حصہ ان پر مشتمل ہے فقہا ء نے اپنی کتا بوں میں دین کے اس حصہ پر بحث کرنے کا ارا دہ ہی نہیں کیا ہے،مثلا ً رو زے کے مسائل میں آ پ کو ہرفقہی کتاب میں یہ مسئلہ ملے گا کہ غیبت کرنے سے روزنہیں ٹوٹتا یعنی رو زے کا قالب متا ثر نہیں ہو تا لیکن کو ن نہیں جا نتا کہ روزے کاقلب اور اس کی رو ح غیبت سے نکل جاتی ہے صحیح حدیثوں میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصریح کی ہے (مقا لات احسا نی : ص۱۸۸ حاشیہ ) مو لا نا گیلا نی رحمہ اللہ کا شما ر اکا بر علما ئے دیو بند میں ہو تا ہے۔معلوم نہیں ان سے علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ بات نقل کرنے میں چوک ہو ئی یا فی الو اقعہ علا مہ کشمیری رحمہ اللہ نے یوں ہی فرما یا کہ ’’ مدت کے بعد ایک غیر مطبوعہ کتا ب میں صرف ایک فقرہ ملا کہ نماز کے مستحبات میں یہ بھی ہے ‘‘ حا لا نکہ الاشباہ و النظا ئر،بدا ئع الصنائع اور رد المحتا ر ص۲۵۸ج۱ میں خشوع کو مستحبات صلا ۃ میں لکھا ہے۔مگر غو ر فر ما ئیے کہ مستحب کہا تو خشو ع کی حیثیت کیا رہی جبکہ مستحب کے با رے میں کہا گیا ہے: الثواب علی الفعل و عد م اللو م علی الترک کہ اس کے کرنے پر ثو ا ب اور نہ کرنے پر ملامت نہیں (رد المحتار: ص۱۲۳ج۱) بلا شبہ حضرات فقہا ئے کر ام نے جسما نی خشو ع سے متعلقہ امو ر سے تو بحث کی