کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 179
فرمایا:
﴿یٰأَیُّھَا النَّبِیُ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لاَّ یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْاً ﴾(الممتحنہ : ۱۲)
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تمہارے پاس مومنہ عورتیں بیعت کرنے آئیں (اس بات پر بیعت کریں ) کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی۔
صحابیات رضی اللہ عنہ ہی سے نہیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیعت لیتے ہوئے بھی سب سے پہلے آپ ا سی کا عہد لیتے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے،جیسا بیعت عقبہ کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے بلکہ قیامت کے روز مشرکوں سے کہا جائے گا:
﴿ أَلَمْ أَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ اٰدَمَ أَنْ لَّا تَعْبُدُوْا الشَّیْطَانَ ج اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُّو ٌمُّبِیْنٌ Oوَأَنِ اعْبُدُوْنِیْ ھَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ﴾(یٰسٓ :۶۰،۶۱)
اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تمہیں تاکید نہیں کی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا،وہ تمہارا صریح دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرنا،یہی صراط مستقیم ہے۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ عہد سے یہاں مراد عہد الست بھی ہے اور انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ اس کی وصیت و تاکید بھی مراد ہے،اس عہد و میثاق کا تقاضا ہے کہ ہم اللہ وحدہ لا شریک کو مانیں اس کی بندگی کریں،کلمہ شہادت میں ایماندار اسی کا اقرار کرتا ہے اور اس کے گھر میں دیوانہ وار چیختا ہوا اس کا اظہار کرتا ہے کہ
لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ
میں غلام حاضر ہوں،اے اللہ! میں غلام حاضر ہوں،تیرا کوئی شریک نہیں،میں حاضر ہوں،بے شک حمد کے آپ ہی سزا وار ہیں،اور ہر نعمت آپکی طرف سے ہے،بادشاہت آپ کی ہے،آ پکاکوئی شریک نہیں۔
مگر افسوس آج امت کی اکثریت اس عہد سے غافل اور اس وصیت سے بے خبری میں مبتلا ہے۔
نذر بھی عہد ہے
اسی طرح وہ اقرار بھی عہد میں شامل ہے جو انسان اپنے اللہ سے کرتا ہے کہ اگر