کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 171
نہ بچوں کو قتل کرو۔گویا میدان جنگ میں غدر اور عہد کی خلاف ورزی سے بچنے کی تاکید فرماتے،جب کہ زمانہ جنگ میں عموماً معاہدوں کی پابندی نہیں ہوتی۔
غزوہ بدر میں افراد کی کمی کا یہ عالم کہ کل تین سو تیرہ سرفروش ہمرکاب ہیں۔ان کے پاس کل آٹھ( ۸) تلواریں دو گھوڑے ستر( ۷۰) اونٹ ہیں،اس بے سروسامانی کے باوصف عہد کی پاسداری کا یہ عالم ہے کہ حذیفہ بن یمان فرماتے ہیں : کہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکا،میں اپنے باپ کے ہمراہ مدینہ طیبہ آرہا تھا راستہ میں مشرکین نے پکڑ لیا،انہوں نے کہا کہ:
انّکم تریدون محمداً فقلنا ما نریدہ فأخذوا منّا عھد اللّٰہ و میثاقہ لننصرفن اِلی المدینۃ ولا نقاتل معہ فأتینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاخبرناہ فقال: انصرفا۔(صحیح مسلم)
تمہارا ارادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کا ہے،تو ہم نے کہا: نہیں،انہوں نے ہم سے اللہ کے نام کا عہدلیا کہ تم مدینہ جاؤ مگر اس شرط پر کہ محمد کے ساتھی بن کر نہیں لڑو گے،چنانچہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے،اور ساری بات عرض کردی،فرمایا: تم لوٹ جاؤ ہمارے ساتھ لڑائی میں شریک نہ ہو۔غور کیجئے وفاء عہد کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی۔
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے،کہ مجھے زمانہ صلح حدیبیہ میں قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا،آپ کے رخ انور پر نظر پڑی تو اسلام دل میں گھر کر گیا،آپ سے عرض کی کہ آپ کا در چھوڑ کرواپس نہیں جاؤں گا۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عہد شکنی نہیں کرسکتا اور نہ ہی قاصد کو اپنے پاس رکھ سکتا ہوں،تم سردست واپس چلے جاؤ اگر تمہارے دل میں اسلام کی محبت ہوئی تو واپس آسکتے ہو،چنانچہ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ واپس مکہ مکرمہ چلے گئے،پھر واپس آئے اور حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔(ابوداؤد مع العون :ص ۳۷ ج ۳ النسائی)
خیبر میں قلعہ قموص کے محاصرہ میں بیس دن گزر گئے،سخت گرمی اور راشن کی بھی کمی تھی،اسی حالت میں صحابہ نے پیٹ بھرنے کے لئے گدھے کو ذبحہ کیا،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے سے منع فرما دیا،اسی اثناء میں ایک سیاہ رنگ کا چرواہا غلام بعض نے