کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 138
نے چھپا لیا اسے بیان نہیں کیا،بلا ریب وہ جھو ٹ کہتا ہے۔گو یا دین کا یہ سا ر ا سلسلہ اسی اما نت پر قا ئم ہے،رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی ساری باتیں بتمام و کمال امت کو بتلا دیں دین کی کوئی بات مخفی نہیں رکھی،اس لئے امام مالک رحمہ اللہ بدعتی کے بارے میں جو دین میں کسی نئی بات کو جاری کرتا ہے،اور اسے اللہ کی رضا کا سبب سمجھتا ہے،فرماتے ہیں : من ابتدع فی الاسلام بدعۃ یراھا حسنۃ فقد زعم أن محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم خان الرسلۃ۔(الاعتصام للشاطبی: ص ۴۹ ج۱) جو اسلام میں ایسی بدعت ا یجادکرتا ہے،جسے وہ اچھی خیال کرتا ہے،تو وہ یہ خیال کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت میں خیانت کی ہے۔(معاذ اللہ ) یعنی اگر یہ عمل اچھا ہوتا اور دین اسلام کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہوتا تو لازماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت کو اس سے آگاہ فرماتے،کیونکہ دین مکمل ہوچکا،اب اس میں اضافہ آپ کو معاذ اللہ خائن سمجھنے کے مترادف ہے۔ امانت کی اہمیت کائنات کے سب سے بڑے امین نے اپنی ابتدائی تعلیم میں امانت کی حفاظت کا حکم فرمایا: جیسا کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے بیان سے آپ پڑھ آئے ہیں،بیعت عقبہ میں سابقین اولین انصار سے جس بات پر عہد لیا اس میں ایک امانت کا عہد تھا،چنانچہ حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اضمنوا لی ستّا من أنفسکم أَضمن لکم الجنّۃ اصدقوا اِذا حدّثتم وأوفوا اذا وعدتم وادو الأمانۃ اِذ ائتمنتم واحفظوا فروجکم وغضّوا أبصارکم و کفوا ایدیکم۔(احمد،ابن حبا ن،حاکم،صحیح الترغیب: ج۲ص۳۹۷) مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو،میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں،جب تم بات کرو تو سچ بولو،جب تم وعدہ کرو تو وفا کرو،جب امین بنایا جائے تو اسے ادا کرو،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو،آنکھیں نیچی رکھو اور ہاتھوں کو روکے رکھو،کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو۔