کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 13
نے یہ آ یت نا ز ل فر مائی۔(ابن کثیر ) عا ص بن وا ئل نے نذر ما نی کہ میں سواو نٹ کی قر با نی دوں گا اس کے بیٹے ھشا م بن عاص نے اپنے حصہ کے پچا س او نٹ کی قربا نی دی،اس کے با رے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آ پ سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ توحید کا اقرار کر لیتا تو اسے فا ئدہ پہنچتا۔(مسند احمد ص۱۸۲،ج۲) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابن جدعان کے با رے میں پوچھا کہ وہ’’یصل الر حم و یطعم المسکین‘‘ بڑا صلہ رحمی کرتا اور مسکینوں کو کھا نا کھلا تا تھا،،کیا اسے ان اعمال سے کچھ فائدہ ہو گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: با لکل نہیں،اس نے کبھی یہ نہیں کہا’’رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْن ‘‘ اے اللہ قیامت کے روز میری خطائیں معا ف فر ما دیں (مسلم :ص۱۱۵ج۱ ابوعوانۃ :ص۱۰ج۱)
اس لیے قبو لیت اعمال کے لیے ایما ن شرط او ل ہے،بلکہ یہ ایک ایسا پا رس ہے کہ اس کے ساتھ معمو لی عمل بھی نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔اس سے دامن خا لی ہو تو بڑے سے بڑا عمل ریت کی دیوارکی مانند بے کا ر بن جاتا ہے۔
خشو ع کیا ہے
خشو ع کے معا نی ہیں جھکنا،عا جزی کر نا،اظہا ر عجز و انکسا ری کرنا۔علا مہ قر طبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ہیئۃ فی النفس یظھر منھا فی الجوارح سکون و تواضع۔(تفسیر قرطبی:ص۳۷۴ج۱)
خشو ع دل میں ایسی ہیئت کا نا م ہے جس سے اعضا ء میں سکو ن و تو اضع ظا ہر ہو۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ کان خشوعھم فی قلوبھم فغضوا بذلک ابصارھم وخفضوا لذلک الجناح ‘‘(الدر المنثور ص ۳ ج ۵)
ان کا خشوع دل میں ہوتا ہے۔اس کی بنا پر ان کی آنکھیں جھک جاتیں اور اعضاء ڈھیلے ہو جاتے۔