کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 12
ہادی و رہبر تسلیم کر تے ہیں۔گویا ایما ن وہ اصل الا صو ل اور بنیا دی چیز ہے جس کی بدولت نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبو ل ہوتے ہیں۔مگر جو ایما ن سے تہی دست ہو وہ خو اہ کتنے ہی نیک اعمال کر لے اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ قبو ل نہیں ہوں گے،ا للہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ﴿ وَا لَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَعْمَا لُھُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآئً حَتّٰی اِذَا جَآئَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا ﴾(النور :۳۹) ’’اور جو کا فر ہیں ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹیل میدا ن میں سراب ہو جسے پیا سا پا نی سمجھ رہا ہوحتی کہ جب وہ اس کے قریب آ تا ہے تو وہاں کچھ نہیں پا تا۔‘‘ گو یا کا فر کے اعمال جسے وہ نیکی تصو ر کرتا ہے اور اپنے لیے نجات کا سبب سمجھتا ہے کی مثا ل چمکتی ریت کی ما نند ہے۔جسے پیا سا دو پہر میں دو ر سے پا نی تصور کرتا ہے مگر جب وہ پیا س کا ما را اس کے قریب جاتا ہے تو اسے ریت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔اسی طرح کا فر جن اعمال پر سہارالگا ئے بیٹھا ہے وہ سارے کے سارے ریت کی ماند ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔اہل مکہ نے اپنی حلا ل کی کما ئی سے بیت اللہ کی تعمیر کی،حجا ج کی بھرپور خدمت کرتے،حج کرتے،صدقہ و خیرات کرتے مگر دو لت ایما ن سے دا من خا لی تھا اسی لیے فرمایا گیا ہے : ﴿ اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ﴾ (التو بۃ :۱۹) کیا تم نے حا جیوں کو پا نی پلا نے اور مسجد حرام کو آ با د کر نے کو اس شخص کے کا م کے برا بر بنا دیا جو اللہ پر اور آ خرت کے دن پر ایما ن لا ئے اور اللہ کی راہ میں جہا د کرئے ؟ اللہ کے نز دیک برابر نہیں ہو سکتے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ آ یت میرے والد عبا س بن عبدالمطلب کے بارے میں نازل ہو ئی۔جب وہ بد ر میں قید ی بنے تو کہنے لگے کیا ہوا،اگر تم اسلام،ہجرت اور جہاد میں ہم سے سبقت لے گئے ہو ہم نے بھی بیت اللہ کی تعمیر کی ہے،حا جیوں کو پا نی پلا یا ہے اسیروں کوآزاد کروایا ہے،تو اسکے جواب میں اللہ تعالیٰ