کتاب: فلاح کی راہیں - صفحہ 11
اس لیے مکمل فلا ح تو مو من کو جنت ہی میں ملے گی،تا ہم ان اوصا ف سے متصف حضرات اس دنیا میں بھی محروم نہیں رہیں گے۔گو وقتی طور پر وہ تکلیف سے دو چا ر ہو تے ہیں مگر نیک نامی،عزت اور ناموری ان اوصاف کے حا ملین ہی کو ملتی ہے۔اچھے الفا ظ سے انہی کو یاد کیا جاتا ہے نہ کہ کسی فا سق و فاجر کو،جس کی شہا دتیں تا ریخ کے اوراق میں محفو ظ ہیں۔دنیا میں اگر وقتی پریشا نیوں میں مو من گھر جاتا ہے تو کیا کا فر ہمیشہ آ سو دگی اور کا میا بی کی زند گی گز ار تا ہے ؟،ہر گز نہیں وہ بھی یہاں بہر آ ئینہ تکا لیف میں مبتلا ہو تا ہے۔دل کے ارما ن اس کے بھی پو رے نہیں ہو تے،مگر ﴿مَالَہُ فِی الْاَ خِرَ ۃِ مِنْ خَلَا قٍ﴾ آخرت میں تو ان کا کو ئی حصہ نہیں۔اور جو یہاں ہے وہ بھی ﴿ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَاْوَاھُمْ جَھَنَّمُ ﴾ چند رو زہ زندگی کا لطف،پھر ان کا ٹھکا نا جہنم(اعا ذنا اللّٰہ منھا)،بتلائیے فلاح کس کا مقد ربنی ؟۔
سو رۃ المو منو ن مکی ہے،مکی دو ر میں صحا بہ کرام پر جو گزر رہی تھی اور رؤسا ئے کفا ر انہیں جس حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے ان احو ال میں یہ اعلا ن کہ ’’قَدْاَفْلَحَ الْمُوْمِنُوْنَ‘‘یقیناً فلا ح پا ئی ایما ن وا لوں نے،یہ اس بات کا اظہا ر تھا کہ دنیا کی جس ظاہری سج دھج کو تم کامیا بی سمجھ رہے ہو یہ تمہا را خیا ل خام ہے۔کامیا ب درحقیقت محمد رسو ل اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کوما ننے و الے ہیں۔آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبو ل کرکے انہوں نے کو ئی خسا رے کا سو دہ نہیں کیا،بلکہ اس دو لت ایما ن کی بناپر وہی سر خرو ہوں گے اور اس دعوت کو قبو ل نہ کر کے خسا رے کا سودا تم نے کیا۔جس کا انجا م تم دوسری زند گی میں تو دیکھو گے ہی،اس دنیا میں بھی اس کا احسا س تمہیں ہو کر رہے گا۔چنا نچہ چند ہی سا لوں بعد ان کی امید وں پرجو اوس پڑی اور جس پستی سے وہ دو چا ر ہو ئے ہر انسا ن نے اسے بچشم سر دیکھا۔اور قرآن پاک کے اس اعلان کی تصدیق کی کہ واقعی فلا ح ایما ن وا لوں کا ہی مقد ر ہے۔
فلا ح کی شر طِ اول ایما ن ہے
بلا شبہ یہ سات اوصا ف فلا ح و فو ز کا ذریعہ ہیں۔مگر کن کے لیے ؟،ایما نداروں کے لیے جو اللہ وحدہ لا شریک کو اپنا معبو د مانتے ہیں،اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسو ل اور اپنا