کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 85
تو یہ حدیث اس بات کی طرف بہت بڑا اشارہ ہے کہ انسان کے ظاہری حرکات کی درستی اس کے دل اور باطن کی درستی کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر اس کا دل سلامت رہا اور اس میں صرف اللہ کی محبت اور اس چیز کی محبت ہو جسے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اس میں اللہ کی خشیت اور اس کی ناپسند چیزوں واقع ہونے کا ڈر ہوا تو اس کے تمام جوارح درست ہو جاتے ہیں اور اگر اس کا دل خراب ہوا اور اس پر خواہشات کی محبت، شہوات کی پیروی اور نفسانیت کا غلبہ ہو جائے تو اس کے تمام جوارح کی حرکات بگڑ جاتی ہیں۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دل تمام اعضاء کا بادشاہ ہے اور تمام اعضاء اس کا لشکر ہیں اور وہ اس کے تابع دار لشکر ہیں اور اس کی اطاعت اور اوامر کے نافذ کرنے میں کوشاں رہتے ہیں، وہ کسی چیز میں اس کی مخالفت نہیں کرتے۔ اگر بادشاہ نیک ہو تو یہ تمام لشکر نیک ہو گا، اگر یہ خراب ہو تو تمام اسی مشابہت کی وجہ سے خراب ہو ں گے، اور اللہ کے نزدیک صرف قلب سلیم نفع دے سکتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ، إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ(الشعراء: ۸۸۔۸۹) ’’جس دن مال اور بیٹے کچھ فائدہ نہ دے سکیں گے۔ مگر جو اللہ تعالیٰ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آیا۔‘‘ ’’قلب سلیم‘‘ اس دل کو کہتے ہیں جو تمام ناپسند چیزوں اور آفتوں سے بچا رہے اور یہ ایسا دل ہے کہ اس میں اللہ کی محبت کے سوا اور کچھ نہیں۔ہاں جو چیز اسے اس کی محبت سے دور کرے اس کا ڈر ضرور ہوتا ہے۔[1] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’پھر یہ دل ہی تمام چیزوں کی بنیاد ہے، تو جب اس میں معرفت اور ارادہ ہو جو اسے بدن تک پہنچا دے تو ممکن نہیں ہے کہ بدن اس سے پیچھے رہ جائے اور
[1] جامع العلوم والحکم لابن رجب،ص: ۲۱۱، ج ۱، تحقیق: شعب الارناؤوط، ط: مؤسسۃ الرسالۃ۔