کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 76
سے الگ ہو جاتے ہیں۔تب ہوائیں ان کو پیٹھ پر لاد کر چل پڑتی ہیں۔ پھر ان سمندروں میں غور کرنا چاہیے جو دنیا کے تمام کناروں کو ضمن میں لیے ہوئے ہیں جنھوں نے بحر محیط بن کر تمام زمین کو گھیر لیا ہے۔ یہاں تک کہ زمین، پہاڑوں اور شہروں کی حیثیت پانی کے مقابلے میں ایسی ہو گئی جیسے صرف ایک چھوٹا سا جزیرہ بہت بڑے سمندر میں ہو اور باقی زمین پانی سے ڈھکی ہوئی ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے اپنی قدرت سے اور مشیت سے نہ روکے تو ساری زمین پر غالب آ جائیں بلکہ اونچے ہو جائیں۔ رات اور دن اللہ تعالیٰ کی عجیب نشانیوں میں سے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے کس طرح رات کو باعث آرام اور پردہ دار بنا دیا۔ رات تمام جہان کو ڈھانپ لیتی ہے تو تمام حرکات اپنی اپنی جگہ ٹھہر جاتی ہیں، حیوانات اپنے گھروں میں اور پرندے اپنے گھونسلوں میں اور تمام ذی روح چیزیں اپنے ٹھکانوں پر اکٹھی ہو جاتی ہیں اور سخت محنت اور تھکاوٹ سے آرام حاصل کرتی ہیں۔پھر جب ان کی جانیں سکون و آرام حاصل کر کے فارغ ہوتی ہیں اور اپنی معیشت اور تصرف کی طرف دیکھتی ہیں تو صبح کا پھاڑنے والا دن کو لے آتا ہے اور صبح کی خوشخبری دینے والا اپنے لشکر کو آگے کرتا ہے تو وہ اس اندھیرے کو شکست دے کر چلتا کرتا ہے تو دنیا سے اندھیرا چھٹ جاتا ہے، تو اچانک لوگوں کو دنیا نظر آنے لگتی ہے۔ تب ذی روح چیزیں پھیل جاتی ہیں اور اپنی معیشت اور مصالح میں مگن ہو جاتی ہیں، پرندے اپنے گھونسلوں کو چھوڑ کر باہر نکل پڑتے ہیں۔تو تعجب کرو کہ یہ اٹھنا اور پھر لوٹنا کس طرح اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کر رہا ہے اور بڑے لوٹنے (یعنی قیامت) پر کس طرح خبر دے رہا ہے۔ سورج اور چاند کی حالت میں تدبر کیا جائے کہ وہ کس طرح طلوع ہوتے اور پھر غروب ہو جاتے ہیں، تاکہ رات کے اور دن کے کام درست ہو سکیں، اگر ان کا طلوع ہونا نہ ہوتا تو دنیا کا سارا معاملہ درہم برہم اور باطل ہو جاتا، تو دیکھو کہ دن کو لوگ کیسے اپنی معیشت کماتے! اور اپنے دنیاوی کاموں میں کیسے مصروف رہتے! کیونکہ دنیا ان پر تاریک ہو جاتی اور تب وہ کس طرح اپنی زندگیوں کو خوشگوار بنا سکتے؟ فرمایا: