کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 59
اسی لیے جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پڑھے اور آپ کی تعریفات میں غور و فکر کرے اور آپ کی ان صفات میں تدبر کرے جو کتاب و سنت میں اور سیرت کی کتابوں میں مرقوم ہیں، ایسا شخص بہت سی بھلائی اپنے لیے سمیٹ لیتا ہے اور اس کی محبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت زیادہ ہو جاتی ہے اور یہ محبت اسے قول و فعل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وارث بنا دیتی ہے اور اس میں اصل الاصول علم ہے اور تمام علوم میں سے نفع دینے والا علم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت پر نظر رکھی جائے اور اس میں غور و فکر کیا جائے۔[1] جس طرح مثلاً کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو سوچتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صفت بیان کی: ﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ (التوبۃ: ۱۲۸) ’’بے شک تمھارے پاس پیغمبرتمھی میں سے تشریف لائے ہیں جن پر وہ چیز گراں گزرتی ہے جس سے تم مشقت میں پڑ جاؤ وہ تم پر شوق اور حرص رکھنے والے ہیں اور مومنوں کے ساتھ شفقت والے اور مہربان ہیں۔‘‘ اور اس فرمان: ﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ (القلم: ۴) ’’اور بے شک آپ بڑے خلق پر ہیں۔‘‘ اور اس فرمان پر غور کرتے: ﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ﴾ (آل عمران: ۱۵۹) ’’پس آپ اللہ کی مہربانی سے ان کے لیے نرم ہو گئے اگر آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے بھاگ جاتے۔‘‘
[1] صید الخاطر لابن الجوزي، ص: ۸۰ الناشر: دار القلم ۔ دمشق ۔