کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 54
سے دور کر دیتی ہے، بلکہ وہ اللہ کو پہچاننے اور اس کا خوف رکھنے میں تمام لوگوں سے زیادہ کمزور ایمان والا، قلیل خشیت والا ہو جاتا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے جب اللہ تعالیٰ کی معرفت میں لوگوں کے تفاوت کا ذکر کیا تو اس کی وجہ نصوص نبوی میں مختلف سمجھ اور معرفت بتائی۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں : ’’تم ان لوگوں کو جو اہل باطل متکلمین کو دیکھو گے کہ وہ نصوص نبویہ کی معرفت نہ ہونے اور نہ سمجھنے سے بصیرت میں نہایت کمزور ہیں اور سلف نے بھی اس بارے میں ان کی مذمت کی ہے، کیونکہ وہ نصوص اور ان کے معانی میں جاہل ہیں اور باطل شبہات ان کے دلوں میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ انھوں نے مزید بیان کیا کہ ان لوگوں سے تو عوام الناس کی حالت بہتر ہے اور اپنے رب کی معرفت میں وہ زیادہ قوی ہیں یہاں تک کہ ان کا بیان ہے: ’’جب تم عام لوگوں کی حالت میں غور و فکر کرو گے جو اکثر لوگوں کے نزدیک مومن نہیں ہیں تو تم دیکھو گے کہ وہ زیادہ کامل بصیرت اور قوی ایمان رکھتے ہیں اور وحی کے ماننے میں وہ ان سے زیادہ ہیں اور حق کی اطاعت میں ان سے آگے ہیں۔‘‘[1] اس سے پہلے انھوں نے اسماء و صفات کی توحید اور سمجھ میں بصیرت کی اہمیت کا اظہار کیا اور اہل کلام کے باطل نظریے سے بچنے کی تاکید کی۔ اس کے بعد انھوں نے ایک ایسا نافع اور جامع کلام پیش کیا جو اس بصیرت تک پہنچا دیتا ہے تو کہا: ’’یہ تمھارا عقیدہ ہونا چاہیے کہ تمھارا دل اللہ تبارک و تعالیٰ کے متعلق گواہی دیتا رہے کہ وہ اپنے عرش پر مستوی ہے اور اپنے اوامر و نواہی سے لوگوں سے ہم کلام ہے اور عالم علوی اور سفلی کی حرکات کو دیکھ رہا ہے اور دنیا کے اشخاص کی آوازیں
[1] مدارج السالکین لابن القیم : ۱؍ ۱۴۵۔ الناشر: دار الکتاب العربی۔